تنخواہ کی قلت وکثرت کا ذکر ہم لوگوں کے لائق بات نہیں ہے ، پڑھانے پر تنخواہ لینا بوجہ ضرورت کے جائز قرار دیا گیا ہے ، ورنہ سچ پوچھو تو دین کی خدمت ہماری ذمہ داری ہے ، اس پر دنیاوی تنخواہ کیسی ؟ اس کا معاوضہ اﷲ ہی دیں گے ، لیکن انسان کی کمزوری پر نگاہ کرکے اسے گوارا کیا گیا ہے ، تو ایسی ناگوار چیز ، جو صرف ضرورۃً گوارا کی گئی ہے ، اس کے سلسلے میں تو اپنے منہ سے کوئی بات نکالنی نہیں چاہئے ، تم تو یہ کہو کہ چاہے مت دو ۔ یا کم دو ، مجھے کام کرنا ہے ، اور جو تمہاری ضرورت ہے اس کا حل کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ اس کیلئے دوسری ذات ہے ، جو سب کی مشکلات کو حل کرتی ہے ، اس سے کہو ۔ اس سے ربط پیدا کرو ۔ اب سے ہر گز تنخواہ کی بات مت کرنا ، بھول جاؤ کہ تم کو کتنی تنخواہ ملتی ہے ۔ کتنی کٹتی ہے ، کتنی ملتی ہے ، اﷲ تعالیٰ ہی جب نہیں دینا چاہیں گے ، تو کون دے سکتا ہے ۔ اور جب وہ دیں گے ، تو کون روک سکتا ہے ۔ یہ تو اتنی موٹی بات ہے کہ کبھی نگاہ کے سامنے سے ہٹنی نہیں چاہئے ۔
تم علم کا اور دین کا کام اﷲ ورسول کی خدمت سمجھ کر کرو ۔ اور اتنی لگن اور محنت سے کرو کہ اﷲ تعالیٰ کو پسند آجائے ۔ مشکلات آئیں ۔ ناگواریاں آئیں ۔ لوگوں کی حرکتوں سے اُلجھن پیش آئے ، تو یہ سمجھ کر راضی رہو کہ اﷲ تعالیٰ کی ہی طرف سے ہے ، سب کا دل ان کے قبضے میں ہے ، وہی جدھر چاہتے ہیں پھیرتے ہیں ، امر بالمعروف ونھی عن المنکر میں زیادہ جوش مت دکھانا ۔ تم لوگوں کا یہ عمل بہت کچھ نفس کے شمول کے ساتھ ہوتا ہے ، اور ہاں ایک بات کا بطور خاص خیال کرو ، مدرسہ کے معاملات ، مدرسہ کے لوگ ، طلبہ واساتذہ پر کوئی تبصرہ نہ کرنا ، ان کی اچھائی ہو، تو مناسب انداز میں کہہ سکتے ہو ، لیکن ان کی برائیاں اور خرابیاں نہ بیان کرو ، اور نہ سنو ، تم نئے آدمی ہو ، بہت سے لوگ تمہاری خیر خواہی میں آکر لوگوں کی برائیاں کریں