یہ خط ایک عالم دین کو لکھاگیا، جنھیں حضرت مولانا سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔
عزیزم ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
کل تمہارا خط ملا ۔ اسے پڑھ کر دل پر ایک کیفیت طاری ہے ۔ اس وقت سے اب تک مسلسل دعا کررہاہوں ۔ اس سے پہلے سے کررہاہوں ، لیکن کل سے کچھ اور ہی رنگ ہے ۔
سنو میاں ! یہ جو سب کچھ تم دیکھ رہے ہو ، اس کی شکایت نہ بان سے کرو نہ قلم سے ، نہ دل میں اس کی کلفت محسوس کرو ، اور نہ طبیعت کو متاثر ہونے دو ، یہ مخلوق نہ کسی کو نفع پہونچاسکتی ہے نہ نقصان ، تم کو کسی کے جملے نے زبردست دھوکہ نہیں دیا ہے ، تم اپنی طبیعت مخلوق سے کیوں اَٹکاتے ہو ، کیا مخلوق روزی رَساں ہے ؟ کیا اسی لئے پڑھا لکھا ہے کہ تمہارے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو تو شکایات کا دفتر لے کر بیٹھ جاؤ ۔ اور رنج وراحت کا سارا مدار مخلوق کوقرار دے بیٹھو ، کیا تنخواہ کم ہوگی ، تو تمہاری ہمت ٹوٹ جائے گی ۔ کیا مدرسہ کی تنخواہ کو اپنے علم اور اپنی خدمت کا معاوضہ سمجھتے ہو ؟ یہ تو عام دنیاداروں جیسی بات ہوئی ، سنو ! یہ سب اﷲ کی طرف سے تمہاری تربیت کا انتظام ہے ، تمہاری طبیعت میں اشتعال ہے ، غصہ ہے ، تلوّن ہے ۔ اگر سمجھو تو یہ احوال انھیں کی طرف سے ہیں ۔ اس لئے ہیں کہ یہ سانپ بچھو طبیعت سے نکل جائیں ، مخلوق کیا کرسکتی ہے ۔ یہ سب اﷲ کی تقدیر سے ہے ، اور تقدیر پر راضی رہنے کا سبق کس کے لئے ہے ، کیا کمالات مشکلات میں پڑے بغیر حاصل ہوسکتے ہیں ، عجیب بات ہے کہ اپنے مزاج کے خلاف بات آتی ہے تو سب کچھ پڑھا لکھا فراموش ہوجاتا ہے ، اور دوسروں کیلئے سب کچھ یاد رہ جاتا ہے ، جو دوسروں نے کیا اسے رہنے دو ، تم کو دین کی ۔ علم دین کی خدمت کرنی ہے ۔ مخلوق کو نظر اعتبار سے ساقط کرو ۔