ومخالف ایشاں بر خطا بود ،اما ایں خطا ئے اجتہادی است تابحد فسق نمی رساند ، بلکہ ملامت را ہمدریں طور خطا گنجائش نیست کہ مخطی را نیزیک درجہ است از ثواب۔
( مکتوب ۵۴ ، دفتر اول)
ترجمہ: جو اختلافات اور جھگڑے اصحاب کرام علیہم الرضوان کے درمیان واقع ہوتے تھے وہ نفسانی خواہشوں پر محمول نہیں ہیں ( اس لئے کہ ) حضرت سیّد البشر ا کی صحبت ( بابرکت) میں ( رہ کر) ان کے نفسوں کا تزکیہ ہوگیا تھا، اور ( ان کا نفس) امارہ پن سے آزاد ہوچکا تھا ، میں اس قدر جانتا ہوں کہ اس معاملہ میں حضرت امیر ( سیّدنا علی ص ) حق پر تھے ، اور ان کے مخالف (حضرت امیرمعاویہ وغیرہ ث ) خطاپر تھے،لیکن یہ خطا ،خطائے اجتہادی ہے جو ( ان کو) فسق کی حد تک نہیں پہونچاتی، بلکہ اس قسم کی خطا میں ملامت کی گنجائش بھی نہیں ہے ، کیونکہ ایسی خطا کرنے والے کو بھی ثواب کا ایک درجہ حاصل ہے۔
عمداً کا مطلب تو یہ ہے کہ بغیر کسی تاویل شرعی کے گناہ سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر قتل کیاجائے ، اور یہاں دونوں جانب اجتہادِ شرعی موجودتھا ، پھر قتل عمد کا کیا معنی ؟ اس باب میں حضرت مجدد صاحب قدس سرہٗ کے ارشاد کو پیشوا بناؤ ، اور اسی پر اکتفاء کرو اس سے زیادہ اس میں کاوش نہ کرو ۔ صحابہ کی بلندیوں تک ہمارا طائر فکر پرواز ہی نہیں کرسکتا ۔ ہم ان کے بارے میں کیا لکھیں ، رضی اﷲ عنھم وأرضاھم عنہ وغفر لنا بمحبتنا واکرامنا إیاھم ولا نقول فیھم إلا ماقال اﷲ ورسولہ ﷺ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۶؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۶ھ
٭٭٭٭٭