یہ توواقعہ ہے کہ زمانے کی ہوا کچھ ایسی ہی ہے کہ آدمی کاایمان ، اس کا زہدو تقویٰ ، اس کی امانت ودیانت سب کچھ اس آگ برساتی فضا میں جھلس کر رہ جائے ، جو وقت آتا ہے ایمان بالغیب کے لئے ایک نیا چیلنج لاتا ہے ، اور غیب پر ایمان ویقین کی کیفیت جتنی ڈھیلی ہوتی جائے گی اسی کے بقدر آدمی گمراہی کے قریب ترہوتا جائے گا ، تاہم اگر ہمت وحوصلہ ہو، حق تعالیٰ کی محبت ہو ، ان پر اعتماد وتوکل ہوتو ان ہواؤں کا رخ پھیرا بھی جاسکتا ہے۔ دیکھو بھائی! دنیا کی معیشت میں ہونا وہی ہے جو حق تعالیٰ نے مقدر کررکھا ہے ، اپنے حصہ سے ایک دانہ زیادہ نہ تم پاسکتے ہو نہ دنیا کا کوئی فرد پاسکتا ہے ۔ اسی طرح جتنا تمہارے مقسوم میں لکھ دیا گیا ہے وہ اپنے وقت پر تم کو مل کر رہے گا، البتہ اس کا وقت مقرر ہے ، وقت سے پہلے لاکھ کھینچنا چاہو ،نہیں کھینچ سکتے۔پھر دنیا کی حرص میں پڑکر خود کو اور اپنے دین وایمان کو کیوں داؤں پر لگایا جائے ۔ کرتے رہو جو کرتے رہو، لیکن أَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ کو اصول بناؤ،یعنی طلب وکوشش میں اجمال پیدا کرو ۔ اجمال کا مطلب یہ ہے کہ اس میں مرنے کھپنے کا طریقہ نہ اختیار کرو۔ اجمال ، تفصیل کے بالمقابل ہے ، تفصیل میں آدمی ایک جزئیہ کو نگاہ میں رکھتا ہے اور ہرہر جز کی رعایت کرتا ہے ۔ اجمال میں ایک اصول کو پکڑ لیتا ہے اور اس کی جزئیات کا زیادہ اہتمام نہیں کرتا ۔طلب وکوشش کا حاصل یہ ہے کہ رزقِ حلال حاصل ہو، وہ اجمالی کوشش سے حاصل ہوگیا ، بس آرام سے اﷲ کی یاد میں لگ جاؤ۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ روزانہ معمول بناکر ، فریضۂ زندگی بناکر ایک خواہ وہ تھوڑا ہی ہو یادِ الٰہی کے لئے مختص کرلو اور اس وقت میں کوئی کام بجز یادِ پروردگار کے نہ کرو ، اور یہ اس لئے نہیں کہ مال میں برکت ہو ، بلکہ اس لئے کہ حق تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے اور اس کی ادائیگی ضروری ہے ، اور اس لئے کہ ایمان وعمل میں برکت ہو ، اس میں