آیا کہ پھر ایک خط لکھوں ، لیکن آج کل اسباق کی اتنی بھرمار ہے کہ بالکل فرصت ہی نہیں ملتی ۔ نو اسباق آج کل چل رہے ہیں ، جن میں سب سے ہلکا سبق کافیہ کا ہے ، اور حضرت مولانا کو خط لکھنے کے لئے بہت اہتمام کرنا پڑتا ہے ، تاہم ہوسکتا ہے کہ اس خط کے پیچھے حضرت مولانا کے نام بھی خط پہونچے ، جب غازی پور کی طرف آنا ہو دوروز پہلے حضرت مولانا کو اطلاع ضرور کردینا۔ تمہارا خط عین اس وقت ملا جب میں ہدایہ کے سبق کے لئے بیٹھ چکا تھا ، طلبہ سب بیٹھے تھے ، میں شدتِ اشتیاق میں اسی وقت خط کھول کر پڑھا، ماشاء اﷲ، الحمدﷲ تم نے آسودہ کردیا۔ حضرت مولانا سے متعلق جتنا کچھ تم نے لکھا تھا ، وہ طلبہ کو سنایا ، پھر طبیعت کا بند کھل گیا ۔ میرے اوپر ایک بے خودی سی طاری ہوگئی ، بہت دیر تک حضرت مولانا کا تذکرہ ہوتا رہا ، پھر حضرت مولانا کی مناسبت سے حضرت مولانا شاہ فضل رحمن قدس سرہ کا ذکر چھڑ گیا ، بس پھرکیا تھا ، وقت بھی گوش بر آواز تھا ، تھوڑی دیر کے بعد گھڑی پر نگاہ ڈالی تو پون گھنٹہ گزر چکا تھا ، اس کے بعد سبق شروع کیا ، اﷲ تم کو جزائے خیر دے
اے وقتِ تو خوش کہ وقتِ ما خوش کردی
حضرت مولانا کی عنایت ومحبت کا کیا پوچھنا ، ان کا ذکر چھڑجاتا ہے تو بس کچھ نہ پوچھو ؎ ذکر اس پری وش کا پھر بیاں اپنا
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا پر استغراقی کیفیت زیادہ رہتی ہے ، اس کا احساس مجھے اس وقت بھی ہوا تھا ، جب میں اب کی بار حاضر خدمت ہوا تھا۔ حضرت مولانا شاہ فضل رحمن قدس سرہ کا بھی یہی حال تھا ۔
ایسے وقت بزرگوں کاالتفات بڑا قیمتی ہوتا ہے ، ایسے وقت خصوصیت سے ان کی توجہات میں جذباتِ الٰہیہ کا شمول ہوتا ہے اور ہر عنایت ایک نیا جذب بخشتی