عزیزم حافظ عبد القادر سلّمہ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
تمہارے خط کا مجھے شدت سے انتظار تھا ، اور اس لئے مزید تھا کہ تمہیں میں نے مولانا محمد احمد صاحب مدظلہ کی خدمت میں بھیجا تھا ، مولانا کا بھی کوئی جواب نہ آیا۔خیر مولانا کے جواب کاتو مجھے انتظار نہ تھا، ہاں تمہاری پہونچ کی خبر کا منتظر تھا ، لیکن تم نے تو ایسا طویل سکوت اختیار کیا کہ مجھے پریشانی محسوس ہونے لگی ۔ کچھ روز کے بعد مولانا کا ٹیلی گرام جوابی آیا کہ میں بیمار تھا ،اب اچھا ہوں ۔ ٹیلی گرام جوابی تھا ، سمجھ میں نہیں آیا کہ جواب کیا دوں ؟ ارادہ کیا کہ الہ آباد حاضر ہوجاؤں مگر اہلیہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور نہ جاسکا ۔ ابھی اسی حیص بیص میں تھا کہ حضرت مولانا کا خط ایک صاحب لے آئے جس میں مولانا نے تمہارے پہونچنے کی اطلاع دی تھی ، اور یہ کہ ایک خط مولانا نے اس کے جواب میں فوراً لکھا تھا مگر وہ خط مجھے نہ مل سکا ۔ اس خط کے جواب میں فوراً میں نے مولوی انوار احمد صاحب کو الہ آباد بھیجا، جب مولوی انوار احمد صاحب الہ آباد سے آلئے جب کہیں تمہارا خط ملا ، خیر ملا تو۔
تم نے اپنا حال بہت خوب لکھا ہے ،تمہارا قلب اچھا ہے ، بہت جلد متاثر ہوتا ہے لیکن کمزور ہے ، تاثر مٹ بھی جاتا ہے اسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ، جس چیز پر لگو مداومت کرو۔ شدتِ تاثر میں تحمل سے زیادہ بار اپنے اوپر نہ لادو ۔ حدیث شریف میں ہے کہ تھوڑا عمل جو مستقل ہوخدا کو بہت پسند ہے ، تم کچھ ذکر اپنے لئے مقرر کرلو اور چوبیس گھنٹہ میں کم ازکم آدھ گھنٹہ مکمل تنہائی کا نکال لو ، اس میں یکسو ہوکر روزانہ ذکر کیا کرو۔ ان شاء اﷲ یہ تاثر پائیدار ہوتا چلا جائے گا۔
تم جہاں ہو وہیں رہو ، میرے پاس کبھی کبھی آیا کرو ۔ اس میں بہت فائدہ