میں نے اپنے کچھ احوال لکھ کر حضرت مولانا کی خدمت میں پیش کئے تھے،یہ خط اسی کا جواب ہے،اس میں پہلی بات یہ تھی کہ :
(۱) میں اپنے دینی احوال میں پچھلے کچھ دنوں سے سخت ابتری پارہا ہوں ، طاعات کی توفیق بالکل نہیں ہوپارہی ہے ، بس آپ میرے لئے دعاء فرمائیں اور توجہ فرمائیں ، نیز اس کیلئے جو ظاہری تدبیر مناسب ہو وہ فرمائیں ، تاکہ کچھ وقت تو یکسوئی کے ساتھ خدا کو یاد کروں ،
دوسری بات بیعت کے سلسلے میں تھی کہ
(۲)شیخ اور مرید کے درمیان ایسی مناسبت ہو کہ شیخ کے کسی فعل پر اشکال نہ ہو، اور میرا حال یہ ہے کہ آ پ ہمارے سر براہ ہیں ، اور میں آپ کا ماتحت ہوں ، آپ کبھی کسی انتظامی مصلحت کی بنا پر ایک فیصلہ کرتے ہیں ، اور مجھے اس پر اشکال ہوتا ہے ، اور اشکال کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے ، تو کیا یہ چیز محرومی کا سبب نہیں بن سکتی ؟ اس مسئلہ پر بطور خاص تشفی فرمائیں ،
تیسری بات اوراد ووظائف کے سلسلے میں تھی کہ
(۳) بیعت کے بعد جو اس کے لوازم ہیں ، مثلاََ اوراد ووظائف اور اس کے متقاضی اعمال، اگر ان میں سستی و کوتاہی ہو تو اس کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ؟ اس لئے کہ میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے اوراد وغیرہ پر استمرار نہیں حاصل ہو پاتا ہے ، اس بنا پر یہ خیال ہوتا ہے کہ جب بیعت کے تقاضے پورے نہ ہوں تونری بیعت سے کیا فائدہ ؟ (ضیاء الحق خیرآبادی)
عزیزم! وفقنی اﷲوایاکم لما یحب ویرضیٰ
السلام علیکم ورحمۃاﷲ وبرکاتہٗ
(۱) جس حال کا تم نے تذکرہ کیا ہے، یہ لوازم طبیعت میں سے ہے۔طبیعت کا رنگ بدلتا رہتا ہے۔کبھی نشاط کی کیفیت ہوتی ہے، تو ہر چیز میں ز ندگی معلوم ہوتی ہے،کبھی انقباض کا رنگ ہوتا ہے ، تو ایک بے دلی سی معلوم ہوتی ہے ، ہم غلاموں کا کام ہے آداب غلامی بجا لاتے رہنا ، اللہ ورسول کی عبادت واطاعت مقصد زندگی ہے ، خواہ ’’منشط‘‘ ہو یا ’’مَکرہ‘‘ دعاء کرو ، خواہ بے کیفی ہو ۔ قیام اللیل کی کوشش کرتے رہو ، خواہ دوہی رکعت نصیب ہو ، گرمی کا موسم ہے رات چھوٹی ہوتی ہے ، میں اللہ سے دعاء کرتا