شریعت میں وراثت کی بنیاد قرابت اور اتحادِ دین ہے ۔ اس میں ’’ الاقرب فالأقرب ‘‘ کااصول ملحوظ ہے ، اﷲ نے ورثاء کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ، ایک وہ جن کے حصے اﷲ نے متعین کردیئے ہیں ، دوسرے وہ جو باقی ماندہ مال میں اپنے حصوں کے مطابق مالک ہوتے ہیں ۔
وراثت میں شریعت نے مرد عورت کے درمیان فرق کیا ہے ، اس کی حکمت پر کلام اطمینان بخش ہونا چاہئے ،ا س کو اس طرح لکھیں کہ قانونِ عدل پر پورا اترے ۔
جہاں قرابت قریبہ پر گفتگو ہوگی ، وہاں یتیم پوتے کی میراث کا مسئلہ بھی زیر بحث آئے گا ،ا سے اچھی طرح غور وفکر کے بعد لکھیں ۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل تحریر ہے کہ آدمی اپنے ورثاء کو محروم کرنے کا کوئی اقدام نہ کرے ، اس موضوع پر حضرت سعد بن وقاص ص کی حدیث ایک رہنما اصول بتاتی ہے ۔
اسی ذیل میں وارث کو عاق کرنے کی بحث بھی آئے گی ، اسے بھی لکھنا چاہئے ، یتیم پوتے کے ذیل میں ایک ذرا غیر متعلق ، لیکن اسی کے دامن سے لگی ہوئی یہ بحث بھی تحریر میں آنی چاہئے کہ خاندان میں ملکیتیں مشترک ہوں یا علیٰحدہ ہوں ، اس سلسلہ میں شرعی نقطۂ نظر کیا ہے ؟ پھر ہمارے یہاں مشترک نہیں بلکہ ایک کے مالک ہونے کا دستور ہے ، اور اس کے تمام بیٹے وغیرہ محض کارندے کی حیثیت رکھتے ہیں ، جن کی اپنی کوئی ملکیت نہیں ہوتی ، اسے شریعت کس نظر سے دیکھتی ہے ، اس مسئلہ کا وراثت سے بہت گہرا اور مؤثر تعلق ہے ، اس کو علمی اور فتویٰ کے انداز میں آنا چاہئے ۔
(۲) اہم پہلوؤں کی طرف اوپر اشارہ کرچکا ہوں ، قرآن کی آیات جو وراثت سے متعلق ہیں ، سورۂ نساء میں تو کافی موجود ہیں ، اس کے علاوہ سورہ مائدہ کے اخیر میں