( ہمارے فاضل دوست مفتی اشتیاق احمد صاحب دربھنگوی (استاد دارالعلوم دیوبند) سراجی کی شرح لکھ رہے تھے ، جو ’’طرازی ‘‘ کے نام سے شائع ہوگئی ہے ، انھوں نے اس سلسلے میں میرے واسطہ سے رہنمائی چاہی تھی ، ذیل کا مکتوب اسی کاجواب ہے )
عزیزم! السلام علیکم ورحمۃاﷲ وبرکاتہٗ
کل تمہارا خط ملا ، میں تو سب پڑھا لکھا بھولتا جارہا ہوں ، اور اب مطالعہ وغیرہ سے دلچسپی بھی باقی نہیں رہی ، علمی مضامین پر غور وفکر کا موقع بھی نہیں ملتا ، کام تو پہلے ہی کیا کیا؟ ، اب تو اور بھی رائیگاں معلوم ہوتا ہوں ، مفتی اشتیاق سلّمہ کی رہنمائی میں کیا کرسکتا ہوں ، یہ تم لوگوں کا حسن ظن ہے ہے کہ مجھ سے اچھی امیدیں قائم کررکھی ہیں ، جی چاہتا ہے کہ معذرت کردوں کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ، بلکہ کسی میدان کا آدمی نہیں ہوں ، تاہم دل شکنی نہ ہو اس لئے چند باتیں لکھتا ہوں ، شاید ان سے وہ اپنا کوئی مطلب اخذ کرلیں ۔
(۱) وراثت انتقال ملکیت کی ایک جبری صورت ہے ، اس میں نہ صاحب ملکیت کے اختیار وارادہ کا کوئی دخل ہے ، اور نہ اس شخص کے ارادہ سے اس کا کوئی تعلق ہے جس کی طرف ملکیت منتقل ہورہی ہے ، اس مضمون کی وضاحت کیلئے انتقال ملکیت کی تمام شرعی صورتوں کو اجمالاً لکھنا مناسب ہوگا ، مثلاً یہ کہ مورث کی موت ہوتے ہی پورا ترکہ مشترک ملکیت بن جاتا ہے ، جبکہ متعدد ورثاء ہوں ،تو پھر اس سے کسی ایک کا استفادہ کرنا ، دوسروں کی مرضی کے بغیر ، یاورثاء میں کوئی نابالغ ہوتو اس میں تبرع کرنا ، وغیرہ صحیح نہ ہوگا ، اس لئے اس کی تقسیم کا عمل جتنی جلد ممکن ہوعمل میں لانا چاہئے ، یہ مضمون ہمارے معاشرے میں خاص اہمیت کا حامل ہے ،ا سے ذرا زور دے کر بیان کرنا چاہئے ۔