میرے لئے نہایت الحاح وزاری سے بارگاہِ رب العزت میں دعا فرماتے ہیں ، معلوم تو تھا کہ آپ برابر دعاؤں میں اس حقیر وغریب کو نوازتے ہیں ، مگر اس تحریر سے بہت اطمینان حاصل ہوا ، مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ نہایت سہولت سے یہ قرض ادا کردیں گے ۔ جب بزرگوں کی دعائیں اس بارگاہِ عالم پناہ میں پہونچیں گی تو کوئی معنی نہیں کہ قبولیت سے سرفراز نہ ہوں ۔
جناب والا نے اپنے بارے میں جو کلماتِ انکسار تحریر فرمائے ہیں ، وہ واقعی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی کو دیکھتے ہوئے اور ان کی عظمت وبلندی پر نظر کرتے ہوئے بالکل حقیقت ہیں ، بلکہ اس عتبۂ عالی کے مقابلہ میں اپنی حقیقی پستی ظاہر کرنے کے لئے شاید زبان ولغت میں کما حقہ کوئی لفظ بھی نہ ملے ، لیکن یہ ان کی جلالت شان کے لحاظ سے ہے جن کے سامنے پیغمبربھی اپنا وجود گم کردیتے ہیں ، تاہم اپنی اسی نسبت کا استحضار جب کسی بندہ کو ہوجاتا ہے تو پھر اس کا اپنا پست وحقیر وجود ختم ہوکروہ حق تعالیٰ کی نسبت عالی کا مظہر بن جاتا ہے ۔ اس وقت اس کی بلندی کا اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، یہی مقام غالباً بقاء باﷲ کہلاتا ہے، اور یہی عبدیت کے خواص میں سے ہے ۔ حق تعالیٰ کا جناب والا پر مخصوص کرم ہے ، اﷲ تعالیٰ اس رُوسیاہ کو آپ کی برکت سے اپنے کرم کا مورِد بنادے ۔ وماذٰلک علی اﷲ بعزیز۔
میری بڑی خواہش تھی کہ شب برأت کا مقدس وقت آپ کے سایہ میں گزارتا ، تاکہ جو فیضان بارگاہِ غیب سے آپ کے اوپر آتارہتا ہے ، ممکن ہے راستہ کایہ حقیر ٹھیکرا بھی اس سے کسی درجہ میں مستفید ہوجاتا ، اسی لئے میں نے ۱۳؍ شعبان کی روانگی طے کی تھی ، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کو یہ منظور نہیں ہے ۔ بات یہ ہوئی کہ بارہ بنکی کے میرے نہایت عزیز دوست جنھوں نے ملفوظات کی کتابت کی ہے ،