سلسلہ بھی جاری رکھا، فراغت کے بعد مدرسہ شیخ الاسلام میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی ، یہی بچہ آج ’’مولانا حافظ ضیاء الحق خیرآبادی ‘‘ ہیں ۔ یہاں یہ میرے دست وبازو ہیں ۔ رسالہ ضیاء الاسلام کااجراء ہواتو انھوں نے اس کی ادارت سنبھالی ، مجھ سے کچھ لکھوالینا انھیں کاکام ہے۔
میں ایک نرا مدرس ہوں ، لکھنا میرا شوق نہیں ،محض ضرورت پر مجبوراً لکھتا ہوں ، اور جو کچھ لکھتا ہوں ، اس کی حفاظت سے بے پروا ہوتا ہوں ۔ میرا لکھا ہوا سب گم ہوچکاہوتا ، لیکن جب سے اس عزیز کا ساتھ ہوا ہے انھوں نے میرا حرف حرف سنبھالنے کی کوشش کی ۔میرے نام سے ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ، ان میں باستثنائے چند سب انھیں کی توجہ اور محبت کی مرہونِ منت ہیں ۔ مکاتیب کا یہ مجموعہ بھی انھیں کی فکرمندی اور اہتمام کانمونہ ہے ، میں ان کے لئے کیا دعا کروں ، میرا وجود ہی ان کے لئے سراپا دعا ہے۔
ایں دعا از من از جملہ جہاں آمین باد
(اعجازاحمد اعظمی)
ذیل کے خطوط اس سیہ کار مرتب کے نام ہیں ، اور شروع کے تین چار خطوط اعتکاف کے متعلق سوالات وجوابات پر مشتمل ہیں ، رمضان ۱۴۱۵ھ میں مَیں نے پہلی مرتبہ حضرت مولاناکی تشویق اور حوصلہ افزائی پر اعتکاف کیا تھا ۔ اس میں ’’ا‘‘ سے اشارہ ’’اعجاز احمد اعظمی ‘‘ کا ، اور ’’ض ‘‘ ’’ ضیاء الحق خیرآبادی ‘‘ کا ۔