نہ کردیا گیا ہو بالکل درست اور ثابت بالسنۃ ہیں ،البتہ اس کی تعمیل کو کسی خاص صورت میں منحصر کرکے باقی صورتوں کی نفی کردی جائے تو یہ البتہ زیادۃ فی الدین ہے، جیسا کہ ان غالین نے کررکھا ہے۔ دیکھو فرض نماز کے بعد دعاء کی ترغیب وارد ہے ، دعاؤں میں ہاتھوں کا اٹھانا بالاتفاق داخل آداب ہے ، پھر کیا بات ہے کہ بعد نماز فرض اسے ترک رفع کے ساتھ خاص کردیا جائے ، اور رفع یدین کو بدعت قرار دیا جائے ، اگر اس تخصیص وانحصار کو بدعت کہاجائے تو بجا ہے ، رہی بات التزام کی تو عزیزم یہ التزام نہیں ہے دوام ہے، اور دوام فی نفسہٖ مطلوب ہے ۔ علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
’’لا ریب ان الادعیۃ دبرالصلوٰۃ قدتواترت تواتراً لا ینکرا ما رفع الایدی فثبت بعد النافلۃ مرۃ او مرتین فالحق بہا الفقہاء بعد المکتوبۃ ایضاً وذہب ابن تیمیۃ وابن قیم الی کونہ بدعۃ بقی ان المواظبۃ علی امر لم یثبت عن النبی ا إلامرۃ او مرتین کیف ہی؟ فتلک ہی الشاکلۃ فی جمیع المستحبات فانہا تثبت طوراً فطوراً ثم الامۃ تواظب علیہا ۔‘
حاصل یہ ہے کہ نمازوں کے بعد دعا کرنا ایسے تواتر سے ثابت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،باقی ہاتھوں کا دعا میں اٹھانا تو نفل کے بعد ایک یا دومرتبہ ثابت ہے، فقہا نے اسی قیاس پر فرض نمازوں کے بعد بھی ہاتھ اٹھانے کو ملحق کیا ہے، اور علامہ ابن تیمیہ اورعلامہ ابن قیم اسے بدعت قرار دیتے ہیں ۔
رہا یہ مسئلہ کہ جو عمل رسول اللہا سے ایک یا دوبار ثابت ہے اس پر دوام کرنا کیسا ہے؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ تمام مستحبات کے اثبات کا یہی طریقہ ہے کہ ان کا ثبوت حضور اکرم اسے کبھی کبھی ہوتا ہے ،پھر امت اس پر مواظبت کرتی ہے، ‘(فیض الباری ج ۴ ص ۴۱۷)