اس عبارت میں خط کشیدہ جملے بہت قیمتی اور اصولی ہیں ، اور علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم نے جو تشدد اس بات میں اختیار کیا ہے وہ بہت نامناسب ہے ، اور اس طرح کے نامناسب تشددات ان دونوں نے بہت سی جگہوں پر اختیار کئے ہیں ، اپنی کسی بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تو نصوص کو خوب توڑتے مروڑتے ہیں اور اگر ان کے مزاج کے خلاف کوئی اصولی گفتگو کرتا ہے تو ظواہر نصوص کی دہائی دیتے ہیں ، ان کا اور ان کے متبعین کا کچھ اعتبار نہیں ، پھر عبارت میں جو ایک دومرتبہ ثبوت کا ذکر آگیا اس سے ثبوت عملی مراد ہے ورنہ ثبوت قولی بہت موجود ہے، اور اسی پر زیادہ اعتماد ہے۔ اصولی بات ہے کہ ثبوت کے لئے قول رسول ،عمل رسول پر مقدم ہے،باقی تفصیل اصل مضمون میں آئے گی۔
تم نے لکھا ہے کہ ’’ میں نہیں جانتا تھا کہ کسی مسئلہ کی تحقیق میں گفتگو کرنا بے ادبی یا گناہ ہے ‘‘ عزیزم ! تم کو اس کا وہم کیوں ہوا؟ مجھے تو واقعۃً اس سے خوشی ہوتی ہے اور تمہارے متوجہ کرنے سے میں اس کی مزید تحقیق میں لگا۔ مجھے کوئی ملال یا رنج ہونا کیا معنی؟ میں تو تم لوگوں سے یہی چاہتا ہی ہوں ، اور میری طرف سے بالکل کھلی اجازت ہے کہ اس مسئلہ میں یا کسی مسئلہ میں جو خدشات ہوں انھیں بے تکلف لکھو، البتہ ان نجدیوں اور مقلدین ابن تیمیہ اور عاکفین ظواہر نصوص کے طریقۂ استدلال اور طرز فکر سے سخت وحشت ہوتی ہے ، ان کم بختوں نے تو تمام ائمہ اربعہ اور علماء کی اجتہادی کوششوں پر پانی پھیردیا ہے۔باقی سب خیر یت ہے۔
اعجاز احمد اعظمی
۱۷؍ رجب ۱۴۱۳ھ (شیخوپور)
٭٭٭٭٭