کہ اس کی کوئی نقل میرے پاس نہیں ہے کہ پھر لکھ کر بھیج دوں ، اور اس وقت ذہن میں مضمون بھی مستحضر نہیں ہے ، البتہ اتنی بات لکھ دینی ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی عمل کے ثبوت کے لئے انحصار صرف عمل رسول اور عمل صحابہ پر نہیں ہے ، اگر کسی بات کا ثبوت عملی دلائل سے نہ ہو مگر اقوال وفرمودات سے ہوتا ہو تو وہ کسی طرح درجے میں اس سے کم نہیں ہے جس کا ثبوت عمل سے ہو، مگر آج کل کے ظاہر پرستوں اور عقل سے بیگانوں کے یہاں سوائے جمود کے کچھ نہیں ملتا، ظواہر الفاظ کے عاکفین کوکوئی بات سمجھانی بہت مشکل ہے ، میں پوچھتا ہوں کہ نمازوں کے بعد دعاؤں کی قبولیت کی بشارت اور اس کی ترغیب احادیث میں آئی ہے یا نہیں ؟ اور پھر دعاؤں میں اور اس کے آداب میں ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ موجود ہے یا نہیں ؟ اگر دونوں بات ثابت ہے تو جماعت کی نمازوں کے بعد یا انفرادی نمازوں کے بعد اگر سب نے یاایک نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی تو اس میں بدعت کی کیا بات ہوئی؟ کیا جو حکم مطلق آیا ہو اگر اس کی تعمیل کسی خاص صورت میں کردی گئی تو وہ بدعت ہوجائے گی، نہ جانے بدعت کی کیا تعریف اور اس کی کیا حدود ان اﷲ کے بندوں کے نزدیک ہے ، لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ استنباط واجتہاد کے تو دشمن ہیں ، جب تک ظواہر ان کے سامنے نہ پیش کروان کی عقل کھلتی ہی نہیں ، اور اسی ظاہر پرستی کے باعث یہ عجب عجب خبط …… میں پڑے رہتے ہیں ۔ میں نے اپنے مضمون میں ظواہر حدیث کو بھی پیش کیا ہے،ابھی وہ مکمل اور صاف نہیں ہوا ہے، بعض حوالوں کی بھی تلاش ہے ، اس لئے تھوڑی تاخیر ہے ، مگر اس کو بدعت کہنا یا اسے غیر ثابت کہنا محض مکابرہ ہے ، جس چیز کی ترغیب وتحریض حدیث میں آگئی ، اس کا مطلوب ومحمود ہونا ثابت ہوگیا، اور اس کی تعمیل کی جتنی جائز صورتیں ہوسکتی ہیں خواہ وہ دورِ صحابہ میں پائی جاتی ہوں یا نہ ،بشرطیکہ کسی خاص صورت میں منحصر