کوئی طبیعت ہوتی ہے اور نہ اس کے تقاضے، یہ اپنی خواہشات کے لحاظ سے فانی اور اﷲ کی مرادات کے لحاظ سے باقی ہوتے ہیں ، جو کچھ ان کے قلوب میں اوپر سے الہام ہوتا ہے اس کے موافق یہ انسان اور بہائم کے قلوب میں موثر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ انہی کی تاثیر ہوتی ہے کہ انسان کا ارادہ شر سے پلٹ کر ایک دم خیر کی طرف ہوجاتا ہے ، بلکہ ان کی تاثیرات اشیاء طبعیہ میں بھی اپنا رنگ دکھاتی ہیں ، چنانچہ کبھی کوئی پتھر پھینکا جاتا ہے تو جتنی دور اسے جانا چاہئے اس سے بہت آگے چلا جاتا ہے ، در حقیقت وہاں کوئی فرشتہ آجاتا ہے جو اس پتھر کو مزید لڑھکا دیتا ہے ، ایک شکاری اپنا کانٹا دریا میں ڈالتا ہے تو فرشتوں کی جماعت آتی ہے اور کسی مچھلی کو اس سے بھگادیتی ہے اور کسی مچھلی کے دل میں کوئی دوسرا اثر ڈال دیتی ہے کہ وہ کانٹے میں آکر گرفتار ہوجاتی ہے ، وہ خود نہیں جانتی کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے ، یونہی کبھی دو فوجوں میں مقابلہ ہوتا ہے ، ایک فوج شجاعت وہمت سے بھرپور ہوتی ہے ، اور دوسری جبن وپستی کا شکار ہوتی ہوجاتی ہے ، یہ درحقیقت ملاء سافل کی کارفرمائی ہے ، ملاء سافل کی عین ضد ایک اور جماعت ہے جس کا مادہ ’’ بخارات ظلمانیہ ‘‘ سے تیار ہوا ہے ، یہ ہر خیر سے عناد رکھتی ہے ، ان کی ساری جدوجہد اور سرگرمی فرشتوں کے خلاف ہوتی ہے ، یہ شیاطین کا گروہ ہے ۔ أعاذنا اﷲ منھا ۔
فرصت نہ تھی ، مختصراً اتنا لکھ دیا ۔ تفصیل کے لئے مزید مثالیں اور ان کا انطباق درکار ہے جس کی فرصت نہیں ، زبانی گفتگو اس کیلئے مناسب رہے گی ۔
والسلام
اعجاز احمداعظمی
۱۶؍ صفر ۱۴۱۱ھ
٭٭٭٭٭