حال میں متوجہ الی اﷲ رہتے ہیں ، انھیں اپنی فطری استعداد کے باعث جو خدا نے ان میں ودیعت کی ہے ، ’’ ہر نظام خیر ‘‘ اور ’’ انتظامِ صالح ‘‘ محبوب اور مطبوع ہوتا ہے ، اور نظامِ شر کی نفرت سے یہ معمور ہوتے ہیں ، ملاء اعلیٰ کے انوار باہم متداخل ہوکر ’’ روحِ اعظم ‘‘ کے پاس جمع ہوتے ہیں ، اس جگہ کا نام شاہ صاحب ’’ حظیرۃ القدس ‘‘ رکھتے ہیں ، اگر خدا تعالیٰ کو مخلوقات کے ساتھ خیر منظور ہوتا ہے تو ’’ حظیرۃ القدس ‘‘ میں اجماع منعقد ہوجاتا ہے کہ اس وقت کے سب سے صالح استعداد والے شخص کی تربیت کرکے اسے درجۂ کمال تک پہونچادیا جائے ، اور پھر بنی آدم کے قلوب میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ اس کے اتباع پر جمع ہوجائیں ، اس طرح ایک نظام صالح کا رواج ہوتا ہے ، پھر نظام صالح کے لئے اسی کے مناسب علوم وحقائق کا انکشاف ہوتا ہے ، کبھی بصورتِ وحی ، کبھی الہام ، کبھی بصورت صدائے غیبی اور کبھی بصورت مشاہدہ ، ملاء اعلیٰ کے یہ فرشتے ان لوگوں کی مدد میں سرگرم ہوتے ہیں ، جو اس نظام کو قبول کرتے ہیں اور جو اس سے دور ہوتا ہے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ، یہی حقیقت نبوت کی اصل اصول ہے ، ملاء اعلیٰ کی اس سرگرمی کو شریعت کی اصطلاح میں ’’ روح القدس کی تائید ‘‘ کہتے ہیں ، ’’روح القدس کی تائید ‘‘ سے عجیب وغریب برکات وخوارق کا ظہور ہوتا ہے ، جس کا تعلق عام اسبابِ عادیہ سے نہیں ہوتا ، انھیں معجزات کہتے ہیں ،یہ حال تو ملاء اعلیٰ کا تھا ۔
ملاء اعلیٰ کے بعد دوسرے کچھ نفوس ہیں ، یہ قسم اول کے مرتبہ پر نہیں ہوتے …جیسا کہ پہلے گزر چکا … ان کا کمال یہ ہے کہ ہر وقت منتظر رہتے ہیں کہ اوپر سے جو احکام آئیں تو انھیں اپنی استعداد کے مطابق قبول کرکے ان کے نفاذ میں سرگرم ہوجائیں جیسا کہ حیوانات اور پرندے اپنے طبعی تقاضوں کے مطابق سرگرم کار رہتے ہیں ،ا سی طرح یہ بھی الٰہی اور خداوندی تقاضوں پر سرگرم عمل ہوتے ہیں ، ان کی نہ اپنی