مضمحل ہوکر رہ جاتی ہے ، یہ لوگ اپنی استعداد کے مطابق کبھی فرشتوں کی پہلی جماعت میں جاشامل ہوتے ہیں ، اور کبھی دوسری جماعت میں ۔ شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کام فرشتوں سے انجام پاتے ہیں ان کی انجام دہی یہ لوگ بھی شریک ہوجاتے ہیں ، ان فرشتوں اور آدمیوں سے کیا کام انجام پاتے ہیں ، اجمالاً شاہ صاحب نے إعلم أنہ قد استفاض من الشرع الخ میں بیان کیا ہے ۔
چونکہ دونوں طرح کے فرشتوں کی استعدادیں متفاوت ہوتی ہیں ، اور اسی لحاظ سے ان کے درجات میں تفاضل ہے ، اس لحاظ سے ان کے اجسام واشباہ کے اندر بھی فرق ناگزیر ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ قسم علم الحق ان نظام الخیر إلیٰ نفوس کریمۃ یعنی ایک قسم وہ ہے کہ نظام خیر ان کے وجود پر باذن خداوندی موقوف ہے ، تو حق تعالیٰ نے کچھ ’’اجسام نوریہ ‘‘ کو پیدا فرمایا اوران میں ’’نفوس کریمہ ‘‘ کی روح پھونکی ۔ ان اجسام کو اﷲ تعالیٰ نے عناصرکے لوث سے پاک رکھا ہے ، اور دوسری قسم وہ ہے جو عناصر کے لوث سے مبرا نہیں ہے ، بلکہ عناصر کے ’’ بخاراتِ لطیفہ ‘‘ کی ترکیب سے ان کا مادہ تیار ہوا پھر ان میں نہایت اعلیٰ درجہ کی روح ڈالی گئی ، جو بہیمیت کی تلویثات سے یکسر منزہ ہے ، یہ بھی فرشتے ہی ہیں ، پہلی جماعت ملاء اعلیٰ کے نام سے موسوم ہے ، اور دوسری جماعت ملاء سافل کے نام سے ، تیسری قسم انسانوں کی جماعت سے اٹھتی ہے ، یہ کبھی ملاء اعلیٰ کے ساتھ لحوق رکھتی ہے اور کبھی ملاء سافل کے ساتھ ، بلکہ بعض اکابر تو دونوں جماعتوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں ، جیسے انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃالسلام۔
پھر شاہ صاحب نے ملاء اعلیٰ کے شئون پر گفتگو کی ہے کہ ان کو باری تعالیٰ کی جانب دوام توجہ حاصل ہوتا ہے ، ایسا دوام جس کو کوئی بھی مانع منقطع نہیں کرسکتا ، وہ ہر