سلسلہ شروع ہوچکا تھا ، تاہم کسی ایک امام کے مسلک کی مکمل تقلید کا ظہور چوتھی صدی ہجری تک نہ تھا ، بلکہ عام لوگوں کا دستور یہ تھا کہ اجماعی مسائل جن میں ائمہ کا اختلاف نہ تھا ، ان میں صاحب شرع کی تقلید ہوتی تھی ۔ چنانچہ وضو ، غسل ، نماز ، زکوٰۃ وغیرہ کے طریقے خود اپنے گھروں سے سیکھتے تھے ، جو بطور تعامل رسول اﷲ ا سے ان تک پہونچے تھے ، اور اگر کہیں مسئلہ معلوم نہ ہوتا اور دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی توکسی مفتی اور فقیہ سے پوچھ لیتے ،اور اس پر عمل کرتے ، خواہ وہ کسی مسلک کا ہو ، اور علماء خواص کا طریقہ یہ تھا کہ محدثین تحصیل حدیث میں مشغول رہتے اور انھیں ایسی صحیح اور مشہور حدیثیں مل جاتیں ، جو عمل کے لئے کافی ہوتیں اور اگر کہیں روایات مختلف ہوتیں تو ترجیح کے لئے فقہاء متقدمین کی جانب رجوع کرتے ، اور اگر فقہاء کے دو یا چند اقوال ملتے تو دلیل کے لحاظ سے جو راجح ہوتا اسے اختیار کرتے ۔ خواہ فقیہ اہل مدینہ میں سے ہو یااہل کوفہ میں سے ۔ اورفقہاء جن مسائل کو صراحۃً نہیں پاتے اپنے اساتذہ کے مسلک پر ان مسائل کی تخریج کرتے ، اور انھیں کی جانب منسوب ہوتے ، چنانچہ’’ فلاں شافعی ہے اور فلاں حنفی ہے‘‘ کی حقیقت یہی ہے ۔ بلکہ محدثین بھی بکثرت مسائل میں جن ائمہ کی موافقت کرتے ہیں انھیں کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے ، جیسے امام نسائی وبیہقی وغیرہ شافعی مشہور ہیں ، ورنہ یہ اکابر خود مجتہد تھے ، اس زمانے میں قاضی ومفتی وہی ہوتا تھا جو مجتہد ہو ۔
یہ تو اصل صورت حال تھی، اور یہی طریقہ فطری اور مزاج شرع کے موافق ہے ، لیکن حالات کے بدلنے سے طریقۂ کار میں تبدیلی کرنی پڑی ۔ بعد میں جوں جوں دین سے دوری بڑھتی گئی ، شریعت کی وقعت قلوب سے کم ہوتی گئی ، اور خواہشات کے اتباع کا زوربڑھتا گیا ، ویسے ویسے دین کی گرفت لوگوں پر ڈھیلی پڑتی گئی ۔ ایسی