دفعہ کے ایک ایک دفعہ اقامت کے کلمات کو ادا کرنا ، اوراسی قسم کی ساری باتوں میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی صورت یہ سمجھی جاتی ہے کہ شریعت کے مطابق ہے ، اور اس کی مخالف شکل غیر شرعی شکل ہے ، بلکہ سلف کا اگر اختلاف تھا بھی تو اس میں تھا کہ ان دو مختلف صورتوں میں اولیٰ اور بہتر شکل کیاہے ، ورنہ دونوں شکلوں کو شرعی شکل قراردینے پر سب متفق ہیں ۔
( الانصاف ، ص: ۸۹)
اس تفصیل سے مسئلہ کی حقیقت تم سمجھ گئے ہوگے ، اگر مزید معلومات چاہو تو مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب تدوین حدیث ص: ۲۹۴سے ۳۷۰ تک ذراغور سے پڑھ لو ۔ انشاء اﷲ اختلاف کی حقیقت منکشف ہوجائے گی ۔
البتہ یہاں پر چند سوال پیدا ہوں گے ۔ (۱) جب تمام صورتیں حق ہیں تو کسی ایک امام کی تقلید کی کیا حاجت ہے ، آدمی جس مسئلہ پر چاہے عمل کرے۔ (۲) مثال کے طور پر امام کے پیچھے جب سورہ فاتحہ پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں صحیح ہے تو امام شافعی علیہ الرحمہ کے فتویٰ کے مطابق اگر مقتدی نہ پڑھے گا تو اس کی نماز فاسد کیوں ہوتی ہے ، اور امام صاحب کے فتویٰ کے مطابق اگر پڑھ لے تو اساء ت وملامت کا مستحق کیوں ہوتا ہے ۔ یا مثلاً ایک رکعت وتر امام صاحب کے نزدیک کیوں درست نہیں ہے جبکہ امام شافعیؒ کے نزدیک صحیح ہے ؟ (۳) اگر سب صحیح ہے تو مجتہد کے خطا وصواب کا کیا مطلب ؟ کہ خطا پر ایک ثواب کا وعدہ ہے اور صواب پر دوہرے اجر کا ۔
پہلے سوال کا جواب سنو ! حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ نے لکھا ہے کہ عامۃ المسلمین چوتھی صدی ہجری سے پہلے کسی ایک امام کی تقلید نہیں کرتے تھے ۔ دوسری صدی ہجری کے بعد کسی ایک امام کے مسائل پر تخریجات کا