حالت میں اگر سابقہ طریقۂ کار کو باقی رکھا جاتاتو تلعب بالدین کا دروازہ کھل جاتا ۔ انتظام شریعت کے واسطے تقلید شخصی ضروری قرار پائی ، اور اب غیر مقلدین کی حالت دیکھ کر یہ بات بداہۃً محسوس ہوتی ہے کہ تقلید شخصی انسان کے لئے کتنی ضروری ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب أنا عند ظن عبدی بی پر غور کرنے سے سمجھ میں آسکتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مجتہد نے یا مبتلیٰ بہ نے حق اجتہاد پورا کرکے یا مکمل تحری کرکے جس جانب کو راجح قرار دیا ، اور سمجھا کہ حق تعالیٰ کی مرضی یہی ہے ، اب اس کے خلاف دوسری راہ اختیار کرنے کی اسے اجازت نہ ہوگی ۔ دیکھو جب جہت تحری قبلہ بن چکی تو اس کے علاوہ کسی اور جہت میں رُخ کرے گا تو اپنی نماز کھودے گا ، گووہ عین قبلہ کی جہت میں ہو ۔ اسی کے مثل تمہاری تحریر کردہ مثال بھی ہے ۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ خطا اورصواب کا تعلق آخرت سے نہیں ہے ، بلکہ دنیاسے ہے یعنی مجتہد نے اخلاص کے ساتھ معاملہ سمجھنے کی کوشش کی اور اجتہاد کی تمام شرائط پوری کیں ، اور ایک فیصلہ کیا ، مگر بعد میں کسی اور دلیل سے معلوم ہوا کہ وہ فیصلہ غلط تھا ، تو گناہگار نہ ہوگا ، بلکہ اجر کا مستحق ہوگا ، اور اگر اس کا فیصلہ صحیح تھا تو دوہرے اجر کا مستحق ہوگا ۔ آخرت میں خطا وصواب کے معلوم ہونے کا یہ مسئلہ نہیں ہے ۔
خدا کرے تمہیں اس سے تشفی ہوجائے ، اگر مناسب سمجھو تو یہ پورا خط کسی ایسے استاذ کو جس پر تمہیں پورا اعتماد ہو ، دکھا دو ۔ اگر اس میں غلطی کی نشاندہی کریں تو اور تصویب کریں تو اطلا ع دو ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
یکم ؍ مارچ ۱۹۸۵ء
٭٭٭٭٭