میں نماز پڑھ لی ، دونوں معاملے جب حضور کے سامنے پیش ہوئے تو آپ نے ہر دو کی تصویب فرمائی ۔ ظاہر ہے کہ آپ پر تو حق مخفی نہ تھا اگر ایک ہی جانب اس اجتہاد میں حق تھا تو دوسرے کی تصویب کا کیا معنیٰ؟ خلاصہ یہ کہ بنیادی احکام کی تشکیلی صورتیں جو اخبارآحاد یا قیاس سے ثابت ہیں ، ان میں جتنی صورتیں دلیل سے ثابت ہیں سب بجا درست ہیں اور سب حق ہیں ۔
مولانا گیلانی نے امام جصاص کا ایک قول نقل کیا ہے کہ :
ان حدیثوں کی بنیاد پر مسائل کی جتنی شکلیں پیدا ہوتی ہیں ، مسلمانوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ ان میں سے جس شکل کو چاہیں اختیار کریں ، فقہاء اور ائمہ میں یہ اختلاف صرف اس میں ہے کہ ان شکلوں میں افضل وبہتر شکل کیا ہے۔
( تفسیر جصاص ،ج:۱ ،ص: ۲۰۴)
بلکہ اس سے بڑھ کر امام جصاص ہی کی اور بات اور بھی نقل کی ہے :
’’مختلف روایتوں کا یہ مطلب سمجھا جائے گا کہ یہ بتانے کے لئے کہ مسلمان ان ان شکلوں اور پہلوؤں میں سے جس شکل اور جس پہلو کو چاہیں اختیار کریں ۔ آنحضرت ا نے سب ہی کرکے دکھایا تاکہ معلوم رہے کہ ساری صورتیں جائز ہیں ۔ ( حوالہ بالا )
اور دیکھو مسند الہندشاہ ولی اﷲ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ :
ایسے اختلافی مسائل جن میں صحابہ کے اقوال ہر پہلو کی تائید میں ملتے ہیں ، مثلاً عیدین وتشریق کی تکبیر یں ، محرم کا ( بحالت احرامِ حج ) نکاح کرنے کا حکم ، یا تشہد کے کلمات جو ابن مسعود اور ابن عباس کی طرف منسوب ہیں ، یا آمین یا بسم اﷲ کو آہستہ پڑھنا یا زور سے پکار کر کہنا ، یا نماز کی اقامت میں بجائے دودو