شرمندگی کچھ کم عذاب ہے ۔ جو لوگ ان فروعی مسائل کے بارے میں جو خبر واحد اور اجتہاد سے ثابت ہوتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ حق کسی ایک جانب میں منحصر ہے ، معلوم نہیں اس کے لئے وہ دلیل کیادیتے ہیں ۔ میں نے بھی زمانہ طالب علمی میں کسی سے یہ بات سنی تھی لیکن اس وقت بھی سمجھ میں نہ آئی تھی ۔ میرے خیال میں اپنے اس دعویٰ پر وہ کوئی صریح تو کجا معمولی دلیل بھی پیش نہ کرسکیں گے ۔ اب تم ایک مسئلہ کولو ، امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا بعض ائمہ کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے ، اور دونوں کے حق میں دلائل نقلیہ وعقلیہ ہیں ، صریح بھی اور غیرصریح بھی ، کسی دلیل کی نہ تکذیب ہوسکتی ہے اورنہ دعویٔ نسخ آسان ہے ۔ اب اگر تم کسی ایک کو صراحۃً غلط کہہ دوتو اس کے دلائل کو کیا کروگے ، آخر شریعت کے مسائل سنت ہی سے تو ثابت ہیں ۔ یہ راستہ بہت خطرناک ہے کہ دونوں کی تغلیط کردو ، یہ بھی غلط ہے کہ ایک کی تغلیط اوردوسرے کی تصدیق کرو،اور پھر رجوع کرو ان لوگوں کی طرف جنھوں نے صاحب حق علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت پائی ہے ، جن کے بارے میں بأیھم إقتدیتم إھتدیتم وارد ہے ، اور ان کی طرف جنھوں نے نبی کے صحبت یافتوں سے شریعت پائی اور ان سے تربیت پائی اور ان سے مزاجِ شریعت سیکھا ہے ۔
حافظ ابوعمرو ابن عبد البر نے اپنی مشہور کتاب جامع بیان العلم میں متصل سند کے ساتھ ایک روایت اسامہ بن زید سے نقل کی ہے ، اسامہ بن زید نے مشہور تابعی ، مدنی امام ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے شاگرد رشید حضرت قاسم بن محمد سے سوال کیا ۔ کہتے ہیں :
سألت القاسم بن محمد عن القرأۃ خلف الامام فیما لم تجھر فیہ فقال إن قرأت فلک فی رجال من أصحاب النبی ﷺ أسوۃ وإن