تم کسی امام کے یہاں اختلاف نہ دیکھو گے ، مثلاً کسی امام کے نزدیک یہ بات نہیں ہے کہ پہلے رکوع کرلو ، پھر قیام کرو ۔ یا پہلے سجدہ کرلو پھر رکوع کرو ۔ ان کا تعلق سنت متواترہ اور تعامل وتوارث سے ہے ۔ یہ بھی اٹل اور غیر متبدل ہیں ۔ ان میں بھی نفس الامرواحد ہے اس کی موافقت حق ہے اور اس سے انحراف ظلم وتعدی کا مصداق ہے ، لیکن یادرکھو ان سے انحراف کا درجۂ شناعت وہ نہیں ہے ، جو اول الذکر بنیادی احکام سے گریز کا ہے ۔ بنیادی احکام کا انکار کفر میں گرادیتا ہے ، جبکہ یہاں کفر کا فتویٰ دینا درست نہیں الا فی بعض الاحکام۔
فروعی احکام کی دوسری قسم وہ ہے جن کا ثبوت اخبارِ آحاد یا قیاس سے ہو ، اختلاف جو کچھ ائمہ کے درمیان پیدا ہوتا ہے ، اس قسم میں ہوتا ہے ۔ یہ تشکیل اعمال کی تفصیلات ہیں ، ان میں شریعت نے وسعت دی ہے ۔ ان احکام میں یہ کہنا کہ نفس الامر ایک ہے اوراس کا ظہور بروزِ قیامت ہوگا ، اور حق کوئی ایک ہی ثابت ہوگا غلط ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حق کے اظہار کے لئے قیامت کاانتظار نہیں کرایا ہے، دنیا میں حق وباطل کو بالکل واضح فرمادیاہے ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ہم بہت اطمینان اور وثوق کے ساتھ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرسکتے ہیں ۔ اگر فروعی احکام کے مختلف فیہ مسائل میں حق کو کسی ایک جانب میں منحصر کردیا جائے اور یہ بھی مان لیاجائے کہ اس حق کا اظہار دنیا میں ممکن نہیں ہے اور پھر یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ اصل قبولیت تو محض حق کی ہی ہوگی ، باقی حق سے منحرف راہوں کو معافی دی جاسکتی ہے ، تو سوچو یہ ظلم ہوگا یا نہیں ، کہاں ایک طرف تو لا یکلف اﷲ نفساً إلا وسعھا کا اعلان ہے، اور کہاں یہ تنگی کہ معمہ بناکر چھوڑدیا ۔غور کرو جن کا مسئلہ حق ہوا وہ تو خوش ہوں گے ، اور جن کا اس کے برخلاف ہوا گوکہ انھیں معافی نصیب ہولیکن کس درجہ شرمندہ ہوں گے اور یہ