اسلام میں احکام دو طرح کے ہیں ، بعض احکام ایسے ہیں جن پر دین کا مدار ہے ،جنھیں تم بنیادی احکام سے تعبیر کرسکتے ہو ، اور بعض احکام انھیں بنیادی احکام کی تعمیلی شکلوں سے متعلق ہیں ، جنھیں تم فروعی احکام سے تعبیر کرسکتے ہو ۔
بنیادی احکام مثلاًتوحید ورسالت ، بعث بعدالموت ، تقدیر وغیرہ کا عقیدہ ، نیز نماز روزہ ، حج ، زکوٰۃ اور اخلاق ومعاشرت سے متعلق بہت سے احکام ، یہ تمام امور تو قرآن کی نصوصِ صریحہ سے یا سنت متواترہ سے ثابت ہیں ۔ ان میں تم کہیں اختلاف نہ پاؤگے ، تمہیں کوئی یہ کہتا نہیں ملے گا کہ نماز مثلاً فرض نہیں ہے ، بلکہ مستحب ہے ۔ ان امور میں تو واقعی حق ا یک نفس الامری چیز ہے ، یعنی خدا کے نزدیک ایک چیز متعین طے شدہ ہے اس کی موافقت حق ہے ، اس سے انحراف باطل ہے ۔ ایسے چیزوں کاا علان واشتہار اتنی کثرت اور تکرار کے ساتھ ہے کہ کوئی احمق سے احمق انسان بھی اس کی قطعیت میں شبہ نہیں کرسکتا ، اور اگر کسی نے اس سے انحراف کی جرأت کی تو وہ خارج از اسلام قرارپایا ۔ دیکھو اہل قرآن نے پانچ وقت کے بجائے تین وقت کی نماز مقرر کی ، اور کافر ہوئے ، قدریہ نے تقدیر کا انکار کیا اوراسلام سے باہر ہوگئے ۔ روافض نے کتاب اﷲ کی محفوظیت تسلیم نہیں کی ، اور کفر میں جاگرے ۔ قادیانیوں کو ختم نبوت میں شبہ ہوا ، اور مرتد ہوگئے ۔ غرض یہ ایسے قطعی امور ہیں کہ اسلام میں داخل رہتے ہوئے کوئی شخص ان میں شبہ نہیں کرسکتا ۔
فروعی احکام اپنے ثبوت کے اعتبار سے دو قسم کے ہیں ۔ بعض احکام ایسے ہیں جن کا ثبوت سنت متواترہ اور تعامل امت سے ہے ۔ مثلاً پانچوں وقت کی نمازوں میں رکعات کی تعداد ،اور وضو میں ہاتھ دھونے سے ابتداء کرنا ، پھر کلی ، پھر ناک میں پانی ڈالنا ۔ نمازوں میں قرآن پڑھنا ۔ ارکانِ نماز کی ترتیب وغیرہ ۔ ان احکام میں بھی