بہ حالت تھی ، اﷲ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم وکرم فرمائیں ، نہ جان محفوظ ، نہ مال محفوظ ، نہ عزت وآبرو کا بچاؤ ، پولیس سے جتنا ظلم ہوسکا کیا ، کئی آدمی مرگئے ، مکانات جل گئے ، کتنی عورتیں بے آبرو ہوئیں ، میں اپنے دل کا حال کیا بتاؤں ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب میری نگاہوں کے سامنے ہورہاہے ، انھیں الجھنوں کی وجہ سے مدھوبنی کا سفر جو پہلے سے پختہ تھا منسوخ کردیا ، اور اسی وجہ سے تمہارا خط بھی اب تک منتظر جواب رہ گیا ، اب بحمد اﷲ حالات ٹھیک ہیں ، کرفیو کھل گیا ہے ، امن وامان کی صورت پیدا ہوگئی ہے ۔
میرے عزیز! تمہارے یہاں میں ضرور آؤں گا ، لیکن کب تک ؟ یہ ابھی نہیں کہہ سکتا ، تم جہاں کام کررہے ہو ، خلوص اور لگن کے ساتھ لگے رہو ، تمہاری استعداد انشاء اﷲ برباد نہ ہوگی ، میں حق تعالیٰ سے برابر دعا کررہاہوں کہ تم کو اپنی عنایت سے ایسی جگہ مرحمت فرمائیں جو تمہارے علم وعمل کے لئے مفید ثابت ہو ، کیا کروں میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے ، بجز اس کے کہ اس حکیم وعلیم کی خدمت میں عجز ونیاز پیش کروں ، پھر جو مناسب ہوو ہ ظہور میں آئے ، میرا یا کسی کا کیا دھرا ہیچ ہے ، سب کچھ ادھر ہی سے ہے ، بندہ سے وہ اپنے دین کا کام لے لیں ، یہی مقصد اعلیٰ ہے ورنہ ہم کسی لائق نہیں ہیں ، ان کا کرم ہے ، یہاں الحمد ﷲ خیریت ہے ، امتحان سہ ماہی ہورہا ہے ، آج دوسرا دن ہے ، کل تک امتحان ہے ۔
والسلام
اعجاز احمد اعظمی ۴؍ صفر ۱۴۰۵ھ
٭٭٭٭٭
عزیزم ! السلام علیکم ورحمۃ ا ﷲ وبرکاتہٗ
تمہارے پہلے خط کا جواب میں نے لکھا تھا ، شاید تمہیں ملا نہیں ، یا کوئی دوسرا خط تم نے لکھا ہو ، جو مجھے نہ ملا ہو ۔ تم نے اپنے علاقہ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے ، اسی کے