اور نادار طالب علم کی نصرت واعانت کو گویا انھوں نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ سخاوت وایثار کی اس روش کی بناپر اپنے شاگردوں میں انھیں غیر معمولی مقبولیت ومحبوبیت حاصل ہے ، ہم لوگ سرزنش اور زجر وتوبیخ کے باوجود شاگردوں کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرپاتے ، لیکن موصوف سے پڑھنے والے طلبہ کتنی ہی غلطیوں اور کوتاہیوں سے محض اس بنا پر اجتناب کرتے ہیں کہ ہمارے اس طرز عمل سے مبادا استاذ محترم کو تکلیف نہ پہونچ جائے ، استاذ وشاگرد کے درمیان جب مخلصانہ ربط وتعلق قائم ہوجاتا ہے تو تعلیم وتربیت کا کوئی مرحلہ دشوار نہیں رہ جاتا۔ غرض ایک اچھے استاذ اور کامیاب مربی میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ ان کی شخصیت میں نمایاں ہیں ۔
عام طور سے متوسطات کی کتابیں مکمل کرلینے کے بعد درس نظامی کے طلبہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور وغیرہ کا رخ کرتے ہیں ، لیکن ان مدارس میں پڑھنے والے شاگردوں سے بھی موصوف کا ربط وتعلق برابر قائم رہتا ہے۔ بُعدِ مسافت کے باوجود وہ خود کو اپنے محبوب استاذ اور مربی ومشفق کے زیر تربیت ہی محسوس کرتے ہیں ، درسگاہ کی تبدیلی اور مقام کا فرق اس تعلق پر مطلق اثر انداز نہیں ہوتے ۔ خطوط کے ذریعے موصوف وقتاً فوقتاً اپنے جانے والے طلبہ کی خبر گیری فرماتے رہتے ہیں ، اس التفات وتوجہ کابڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ اپنے مقاصد سفر اور فریضے سے غافل وبے پرواہ نہیں ہوتے ، بھیجے ہوئے ان خطوط میں اُنس ومحبت اور ہمدردی وبہی خواہی کی وہ حلاوت ولطافت ہوتی ہے جسے پڑھ کر مخاطب اپنے ہر رنج وغم اور دکھ درد کو بھول جاتا ہے ، موصوف نے اپنے شاگردوں کے نام جو خطوط تحریر کئے ہیں انھیں مسافران علم کے لئے قیمتی سوغات اور چراغ راہ سمجھنا چاہئے۔
بزرگوں کے منتخب واقعات اور علمائے سلف کے حالات وہ اس طرح رقم