ہوکر یقینا شائع ہوجاتے۔
مدرسہ دینیہ غازی پور میں ہم دونوں ایک عرصہ تک ساتھ ساتھ رہے ، کم وبیش یہ زمانہ چھ برسوں پر محیط ہے ، اس مدت میں موصوف کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ، اور یہ محسوس کیا کہ پہلے کے مقابلہ میں ا ب ان کی زندگی کے لیل ونہار یکسر بدل چکے ہیں ، ظرافت وشوخی کی جگہ متانت وسنجیدگی نے لے لی ہے ، اور ان کی ہر نقل وحرکت میں ایک طرح کا سکون ووقار پیدا ہوچلا ہے ، پہلے انھیں تاریخ وادب کے مطالعہ سے بے حد دلچسپی تھی ، لیکن اب تفسیر وحدیث اور فقہ وتصوف سے شبانہ روز کاواسطہ ہے۔
کتاب الزہد والرقاق ، کتاب الاذکار ، حصن حصین ، مثنوی مولانا روم ، مکتوبات مجدد الف ثانی ، مکتوبات شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ، تذکرۃ الرشید ، تذکرۃ الخلیل ، دُرُّالمعارف ، یہ وہ کتابیں ہیں جن سے موصوف نے خود بھی بہت کچھ فائدہ اٹھایا اور مجھ کو بھی یہ کتابیں پڑھ کر سنائیں ، اسی طرح حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور شاہ وصی اﷲ الہ آبادی کی تحریرات وتالیفات کو اتنی بار پڑھا اور اس قدر ذوق وشوق سے پڑھا کہ وہ ان کے ترجمان بن گئے ،اوربالآخر دوسرے اساتذہ کو بھی ان کتابوں کی قدرو قیمت اور افادیت واہمیت کااحساس ہونے لگا ۔ بزرگانِ سلف اورا کابر کی ان تالیفات وتصنیفات نے جہاں مولانا کے ذہن ومزاج اور کردار وعمل پر گہرا اثر ڈالا وہیں ان سے پڑھنے والے طلباء بھی بالواسطہ ان کتابوں کے مضامین اور مندرجات سے فیضیاب ہوتے چلے گئے۔ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت واصلاح کی فکر اور اس کااہتمام جس قدر مولانا کے یہاں ہم نے دیکھا اپنے ہم نشینوں میں کہیں اس کی مثال نہیں مل سکی ، مولانا اپنے شاگردوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ، اور ان کے دکھ درد کو خود اپنا درد سمجھتے ہیں ۔ قلیل المعاش ہونے کے باوجود اپنے ہر ضرورت مند