تمہارا خط ملا ، حسب عادت جواب میں تاخیر ہوئی ، معاف کرنا ، دیوبند بھی گیا تھا ، مولانا عبد الحلیم صاحب سے ملاقات ہوئی تھی لیکن شاید انھوں نے پہچانا نہیں ، دیوبند کی تفصیلات تو بعد میں بتاؤں گا ، مختصراً اتنا ہے کہ ؎
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غم ناک نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
آپس میں جذب محبت نہیں ، دلوں میں آرزو کی حرارت نہیں ،نگاہوں میں آدابِ معرفت نہیں ، بس متاعِ کارواں گم ہے اور اہل کارواں شاید احساسِ زیاں سے بھی محروم ہیں ، میرا مدعا تم دوستوں سے یہی ہے کہ دنیا سرمایہ گم کرچکی ہے ، اس کو پانے کی کوشش کرو ، دلوں میں حوصلہ وآرزو نہ ہوتو وہ دل کا ہے کو ہے ، لیکن معاذ اﷲ میری مراد دنیا اور دولت دنیا کی آرزو مندی نہیں ہے ، یہ تو انسانیت کے لئے زہر ہے ، جس نے اس حرص وہوس کا جال پھیلایا وہ پھر کبھی اس سے نکل نہ سکا ، میری مرادوہ آرزومندی ہے جو ہمارے اسلاف واکابر کے سینوں میں موجزن تھی یعنی قل ماعند اﷲ خیر ، کیا سمجھے۔
اسبابِ علم کی فراوانی اور علم کی گمشدگی نے کلیجہ فگار کررکھا ہے ، مدرسے ہیں ، کتابیں ہیں ، مطالعے ہیں ، مصنفین ہیں ، سب کچھ ہے مگر علم نہیں ہے ، حقیقت علم نہیں ہے اور یہی حاصل کرنے کی چیز ہے ۔ اجمال سے کام لے رہاہوں ، تفصیلات اپنے حافظہ کی مدد سے نکالو ، مولانا مفتی محمدحنیف صاحب میرے نزدیک یکے از علمائے خیر ہیں ، ان کی صحبت کو غنیمت سمجھو ، ان کے علاوہ اور کسی پر دل نہ جماؤ ، مولانا کی صحبت فیماأظن بہر حال مفید اور بار آورہوگی ، معلوم ہوا کہ اب مولانا کی توجہ تم لوگوں پر مبذول ہوئی ہے ، جب بھی ہو اور جتنی بھی ہو بہت ہے ، میں سب جگہ دیکھ چکا ہوں ، محض نام ہے اور کچھ نہیں ، مولوی عبد الشکور سلّمہ کو سلام کہو اور یہی مضمون انھیں بھی سنادو ،