ٹیلیفون کیا ، وہاں بیت العلوم کے مدرس حافظ صابر حسین نے بتایا کہ حافظ زبیر صاحب کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ، اس کے بعد ماسٹرمحمد قاسم صاحب مدظلہٗ کا خط آیا ، انھوں نے بھی اس کی اطلاع دی ، إناﷲ وإنا إلیہ راجعون، غفر اﷲ لہ وکفَّر عن سیئاتہ وأدخلہ الجنۃ برحمتہ ورزقکم صبرا ً جمیلاًو أعظم أجورکم بفضلہ ومَنِّہٖ وھو أرحم الراحمین ۔
اس حادثہ کی خبر سے طبیعت بہت محزون ہوئی ، تم لوگوں سے مجھ کو جو تعلق اور محبت ہے ،ا س کی وجہ سے دل پر وہ اثر ہوا جو میں بیان نہیں کرسکتا ، لیکن انسان تو ایک بندہ اور غلام ہے ، اسے اپنے مالک و مولیٰ کی مرضی کے آگے بہر حال سر جھکانا ، اور اسی کے ساتھ دل لگانا ہے ، ان کے تما م تصرفات میں ان کی قدرت کا بھی ظہور ہے ، اور حکمت کا بھی اور نتائج وانجام کے لحاظ سے ہمارے حق میں رحمت کا بھی ۔ انھوں نے ایک مدتِ متعینہ دے کر ہر انسان کو دنیا میں بھیجا ہے ، ان کی رحمت ہے کہ وہ مدت کسی انسان کو بتائی نہیں ، ورنہ پوری زندگی ایک مصیبت میں بسر ہوتی ، اب چونکہ وہ مدت معلوم نہیں ، اس لئے آدمی زندگی کے نشیب وفراز سے کبھی خوشی اور کبھی رنج وکلفت کے ساتھ گذرتا رہتا ہے ، پھر جب مدت پوری ہوجاتی ہے تو نہ ایک سیکنڈ ادھر اور نہ ایک سیکنڈ اُدھر ، آدمی ! نہیں بلکہ غلام اپنے آقا کے پاس پہونچ جاتا ہے ، اگر نیک وصالح ہے تو خوشی خوشی جاتا ہے ، اور وہاں پہونچ کر بہت زیادہ خوشی پاتا ہے ، ایسی خوشی جس میں رنج کا نام ونشان نہیں ۔ دائمی اور ابدی خوشی ، البتہ اس کے اعزہ واقرباء اس کی دنیاوی صحبت کی جدائی سے پریشان ہوتے ہیں ، مگر پریشانی اجر سے خالی نہیں ہوتی ، الحمد ﷲ کہ تم لوگوں کے والد مرحوم خود نیک تھے ، اور امکان بھر اپنی اولاد کو نیک بنانے میں لگے رہے اور بحمد اﷲ اس میں کامیاب رہے ۔ خدا کی ذات سے یہی امید ہے کہ