تمہارا خط ملا، مدرسہ کے حالات معلوم ہوئے ، حضرت ماسٹر صاحب مدظلہٗ کو کچھ لکھ تودیا ہے ، لیکن یہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ آدمی پر جو دقت وپریشانی آتی ہے ، اگر اس پر دل سے رضامندی اور حق تعالیٰ کی تقدیر پر صبرو شکر نہیں ہے ، بلکہ شکایت کا عنصر ہے تو وہ اپنی کرتوت کی سزا ہے ، ایسے مواقع پر حضور اکرم ا کی تعلیم یہ ہے کہ جو تم پر حق ہے اسے ادا کرو ، اور جو تمہارا حق دوسروں پر ہے ، اسے اﷲ سے مانگو ،ا سی لئے اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے ، نیت کی بھی اور عمل کی بھی ۔ اس بات کو اپنے لوگوں کے درمیان عام کرنے کی ضرورت ہے ، آدمی اپنی مصیبت کا الزام دوسرے پر رکھ کر خود کو فریب دیتا ہے ، یہ فریب دنیا ہی تک رہے گا ، آخرت میں سب پردہ کھل جائے گا ۔ اپنی اصلاح کرنی چاہئے اپنے معاشرہ میں اصلاح کو عام کرنا چاہئے ، اپنی ناکارگی اور اپنی معصیتوں کی توجیہ کرکے مزید دلدل میں پھنسنا عقلمندی نہیں ہے ، اس باب میں مدرسین بہت قصوروار ہیں ، مگر انھیں احساس نہیں ، تنخواہ اہل مدرسہ نہیں دیتے ، اﷲ تعالیٰ دیتے ہیں ۔ وقت بے وقت وہی کرتے ہیں ، اس میں کسی کا کوئی اختیار نہیں ، تمہارے قلم سے یہ شکایت پسند نہیں آئی ۔
وفاق بنیادِ نفاق ہے ، خدا کرے ایسا نہ ہو ، مگر مجھے تجربہ ہے ، یہ مدارس کو کسی اور رُخ پر ڈال دے گا ، تجربہ کرو ۔ والد صاحب کی صحت وعافیت کی دعاکرتا ہوں ، خدا کرے عبد اﷲ سلّمہ اچھا حافظ اور عالم باعمل بنے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
یکم ؍ ربیع الاول ۱۴۱۷ھ
٭٭٭٭٭
عزیزانِ گرامی مولوی عبد الشکور وبرادران سلّمہم!
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
کل تمہارے ٹیلفون کا انتظار تھا ، بڑی پریشانی میں تھا ، پھر ایک دن کلکتہ