لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے یہاں سارا زور اختلافی مسائل پر صرف کردیاجاتا ہے ، اور اس قسم کی احادیث سے آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے ہمارا تعلق ہی نہیں ، اسے کیا کہوں مجھے تو أفتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کا منظر نظر آتا ہے ، خدا تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ، گوکہ یہ بات ذرا سخت ہے لیکن غلط نہیں ہے ، انداز کچھ ایسا ہی ہوگیا ہے ، ورنہ احوالِ آخرت اور سیرت واخلاق کی احادیث کے ساتھ یہ بے اعتنائی کا سلوک کیوں ہے ۔ ہمارے متقدمین اکابر دیوبند کو ان اختلافی مسائل پر ضرورۃً کلام کرنا پڑا تھا ، کیونکہ غیر مقلدیت ان دنوں نئی نئی اٹھی تھی ، اور شور وطوفان برپا کررکھا تھا ، لیکن ان حضرات کا کلام مختصر ہوتا تھا ، دوسرے وہ حضرات سیرت نبوی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے ، آدمی اگر ایک طرف ان سے اختلافی مسائل کی تحقیق کرتا تھا تو دوسری طرف ان کے اخلاق وعمل سے روشنی بھی حاصل کرتا تھا ، اب صرف اختلاف ہی اختلاف رہ گیا ہے ، وہ روشنی گل ہوگئی ہے ۔ اس لئے میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ ہر حدیث میں حنفیت کی تلاش مناسب نہیں ہے ، اصل میدان محنت واجتہاد کا یہ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ والقصۃ بطولھا ۔
باقی یہاں سب خیریت ہے ، آج سے امتحانِ ششماہی ہورہا ہے ۔
والسلام
اعجاز احمد اعظمی ،مدرسہ دینیہ غازی پور
۳۰؍ ربیع الثانی ۱۴۰۳ھ
٭٭٭٭٭
عزیز گرامی! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ