حدیث میں رسول اﷲ ا کی پوری زندگی کا مطالعہ کرو ، حنفیت وشافعیت کا جھگڑا ایک طرف رکھ دو ، ان چند مسائل کے سوا عام زندگی کے اَطوار وعادات میں حنفیت وشافعیت کا اختلاف نہیں ہے، صرف اختلافی مسائل میں ہی آپ کا عمل اُسوہ نہیں ، بلکہ آپ کا ہر ہر طریقہ ، ہرہر عقیدہ اور ہرہرعمل اُسوہ ہے ۔ احناف والی نماز بھی حضور نے پڑھی ہے ، بس مطمئن رہو ۔ پوری زندگی کیلئے آپ کو معیار بناکر حدیث پڑھو ، میرا مدعا شاید تم سمجھ گئے ہوگے اور اگر نہ سمجھ میں آیا ہو تو ایک واقعہ سے سمجھو ۔
حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب گنج مرادآبادی کی خدمت میں ایک اعلیٰ پایہ کے غیر مقلد عالم پہونچے ، پوچھا مولوی صاحب تم عامل بالحدیث ہو ، عرض کیا جی ہاں الحمد ﷲ ، فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤکہ حضور جب گھر سے نکلتے تھے تو کیا دعا پڑھتے تھے؟ عرض کیا حضرت یاد نہیں ، دیکھ کر بتاؤں گا ، پوچھا اچھا جب لباس پہنتے تھے تو کیا دعا پڑھتے تھے ؟ اس کا جواب بھی نفی میں دیا ۔ اسی طرح کئی مواقع کی احادیث دریافت کیں ، اور ہر ایک کا جواب لاعلمی کی صورت میں ملتا رہا ، حضرت نے فرمایا کہ بس جی مولوی صاحب صرف اختلافی مسائل کی حدتک تم عامل بالحدیث ہو اور بس ، اسی کا نام عمل بالحدیث ہے ۔ مولوی صاحب بہت شرمندہ ہوئے ۔ اب تم سمجھ گئے ہوگے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ، سیدھی بات یہ ہے کہ حدیث کا مدلول جو ہو رہنے دو ، یہ دیکھو کہ ان احادیث کے آئینے میں آپ کی سیرت کیسی نظر آتی ہے ، اپنی سیرت کو اسی پر جانچو ۔ اس کے لئے احادیث کو بہت غور سے پڑھنا ہوگا ، بالخصوص وہ احادیث جو آپ کی عبدیت ، ذوقِ عبادت ، اخلاق واوصاف ، خشوع وانابت اور سیرت کی بلندی کا آئینہ پیش کرتی ہیں ، یا وہ احادیث جو غیبی حقائق مثلاً صفاتِ الٰہیہ ، جنت ودوزخ ، برزخ وقیامت اور اس قسم کے احوال پر روشنی ڈالتی ہیں ، ان کا غائر نظر سے مطالعہ کرنا چاہئے ،