سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرص نے ان کی گردن میں اپنی چادر لپیٹ دی اور پوچھا کہ پڑھنے کا یہ نیا طریقہ تم نے کہاں سے نکالا ، عرض کیا میں نے حضور ا سے ایسا ہی سیکھا ہے ۔ حضرت عمرؓ انھیں کھینچتے ہوئے دربارِ رسالت میں لائے اور عرض کیا کہ یہ قرآن غلط پڑھتا ہے ، آپ انے ان کی قرأت سنی ، اور فرمایا کہ ٹھیک ہے ، پھر حضرت عمر سے پڑھوایا اور ان کی بھی تصویب کی ، اور فرمایا کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے ، اور ہر ایک کافی وشافی ہے ، اور یہ سمجھ لو کہ سات حروف سے مراد سات قرأتیں جواب رائج ہیں یہ نہیں ہیں ، بلکہ ان کے الفاظ بھی بد لے ہوئے ہیں ، غرض جب قرآن کریم میں تلاوت کی یہ سہولت دی گئی ہے تو آثار واحادیث سے پتہ چلتا ہے کہ عمل میں بھی سہولت دی گئی ہے ، انھیں قاسم بن محمد کا مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے پاس بیٹھے ، اعمال کی کچھ حدیثیں سنارہے تھے ، جب کوئی حدیث پڑھتے تو حضرت عمر بن عبد العزیز اس کے برخلاف دوسری حدیث پڑھ دیتے ، اس سے قاسم بن محمد کو گرانی محسوس ہوئی ، خلیفہ راشد نے فرمایا آپ کو تکدر کیوں ہورہا ہے ، خدا کی قسم ان اختلافات کے عوض اگر مجھے سرخ اونٹ عطا کئے جائیں تو میں پسند نہ کروں ۔ حضرت قاسم بن محمد اس پر بہت مسرور ہوئے ۔ بعض غالی حضرات کہہ دیتے ہیں کہ حق اﷲ کے نزدیک ان چاروں میں سے کسی ایک میں دائر ہے ، یہ صحیح نہیں ہے ۔ بہر کیف میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حنفی مسلک نہایت قوی اور مضبوط دلائل پر قائم ہے ، اس کی خاطر احادیث کے صریح مدلولات کو توڑنا مناسب نہیں ، اگر کوئی حدیث امام شافعی علیہ الرحمہ کی تائید کرتی ہے تو چشم ماروشن ودلِ ما شاد ، ہمارے لئے بھی نبی کا اسوہ موجود ہے ۔ ہاں نبی کا کوئی اُسوہ نہ ہو تب الزام دو ۔ خلاصہ یہ کہ تحنف فی الحدیث کا طریقہ مجھے پسند نہیں ہے ، شایدمشکوٰۃ شریف کے درس میں بھی اس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا ، تم