ہے ، الا ماشاء اﷲ ۔ مدارس کے یہ اجتماعی ماحول اب افراد کی تربیت تو کیا کرتے انھیں بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں ، اس ماحول میں دامن کشاں چلنا ہی کامیابی کی راہ ہے ۔ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہٗ نے کسی موقع پر فرمایا تھا کہ پہلے اہل اﷲ چار مجاہدے تجویز فرماتے تھے ، تقلیل طعام ، تقلیل کلام ، تقلیل منام اور تقلیل اختلاط مع الانام ۔ مگر اب سب منسوخ اور آخر کا متعین ہے ، اس کے بغیر کامیابی ہر گز نہیں ہوسکتی ، تقلیل کلام تو اس کے ضمن میں ہوجائے گی ، طالب علم کے لئے بھی یہی اصول متعین ہے ۔
اب علم کا تعلق رجال سے زیادہ کتب سے ہوچکا ہے ، رجال کے پیچھے صرف جال ہی جال ہے، یوں کہئے کہ جعل ہی جعل ہے ، کتابوں کا مطالعہ قاعدہ سے کرو ۔ ہمارے مدارس میں تفقہ فی الحدیث کا اہتمام ہے ، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ حدیث کو حنفی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، تو غلط نہ ہوگا ، میرا خیال اس باب میں یہ ہے کہ حنفی مسلک اس کا محتاج نہیں کہ ہر ہر حدیث اس پر منطبق ہو ، رسول اﷲ ا نے عمل میں سہولت بخشی ہے ، چاروں مسالک آپ کے ارشاد وعمل کی روشنی میں ماخوذ ہیں اور سب درست ہیں ، اس لئے یہ کاوش بیجا ہے کہ ہر حدیث کو توڑ مروڑ کر لازماً حنفی ہی بنالیا جائے ۔
حضرت قاسم بن محمدؒ فقہائِ مدینہ میں شمار ہوتے ہیں ، حضرت ابوبکر ص کے پوتے ہیں ، ان سے کسی نے سوال کیا کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھوں یا نہ پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر پڑھوگے تو صحابہ میں اس کا بھی نمونہ موجود ہے ، اور نہ پڑھو گے تو اس کا بھی نمونہ موجود ہے ۔بأیھم إقتدیتم إھتدیتم ، دیکھوتم نے حدیث کی کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ حضرت عمر ص نے ہشام بن حکیم ص کو نماز میں سورۂ فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ، وہ کسی اور طریقے پر پڑھ رہے تھے ، حضرت عمرص دوسرے طریقے پر پڑھتے تھے ، انھیں جلال آگیا ، سوچاکہ نماز ہی میں دبوچ لیں ، لیکن صبر کیا جب وہ نماز