نفس کا والہانہ اظہار تھا ، علم پروری تھی ، زبان وادب کے چٹخارے تھے ، اور ان سب سے بڑھ کر تعلق خاطر کی بیکراں نکہت وخوشبو تھی ، جس سے مشامِ جاں معطر ہواجاتا تھا۔ بعض مسائل ومباحث کے پیخ وخم میں الجھ کر ذہنی وفکری اعتبار سے میں جس مقام پر جاچکا تھا ، اس دوران موصوف کی شفقت ومحبت میری شریک حال نہ ہوتی تو خدا نخواستہ اس سے میری واپسی دشوار ہی نہیں دشوار تر تھی ۔ یہاں پہونچ کر اپنے زمانے کے روحانی پیشوا ، علم حدیث کے شناور ، مظاہر علوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا صاحب ؒ کی شفقت وعنایت کا ذکر نہ کروں تو بڑی ناسپاسی ہوگی ۔عہد طالب علمی میں ، ایک عرصہ تک میں مسئلۂ جبر واختیار اور فلسفۂ خیر وشر کی گتھیاں سلجھانے میں اپنی ذہنی توانائی اور زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کرتارہا ،مگر اس ڈور کو عقل کی راہ سے سلجھانے کی میں نے جتنی جتنی کوشش کی ، اسی قدر الجھتی چلی گئی ۔ بالآخر بعض حضرات کے مشورے سے میں نے انھیں ایک مفصل عریضہ لکھ کر بھیجا ، جس کا جواب مجھے چند ہی روز کے بعد دستیاب ہوگیا۔ حضر ت شیخ علیہ الرحمہ نے اس مختصر سے مکتو ب میں ناچیز کو چند نصیحتیں فرمائی تھیں اور یہ لکھا تھا کہ میں تمہارے لئے مخصوص اوقات میں دعاء کروں گا۔ چنانچہ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد قلب میں اطمینان ویقین کی وہ خنکی محسوس ہونے لگی ، جس نے شک وارتیاب کے اس کوچے میں بھٹکنے سے ہمیشہ کے لئے مجھے محفوظ کردیا ۔ اﷲ تعالیٰ ان کے مراتب ودرجات بلند فرمائے۔
موصوف کی تحریک پر جب میں مغربی یوپی سے مدرسہ دینیہ غازی پور آیا تو ان کے خطوط کا یہ گلدستہ میرے ہمراہ تھا ، اپنے لابالی پن کے مدنظر بغرضِ حفاظت یہ خطوط مولانا کے حوالے کردئے ، لیکن کسی وجہ سے یہ سرمایۂ علم وادب خود ان کے پاس بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ اگر یہ محبت نامے ضائع نہ ہوتے تو اسی مجموعۂ مکاتیب میں شامل