سمجھتے ہو کہ لوگوں کے درمیان رہوں گا ، تو اس برائی سے بچ نہیں سکتا ، تو بس چپکے سے الگ ہوجاؤ ، دوسرا نسخہ اس کا یہ بھی منقول ہے کہ رأیتَ أمراً لاید لک منہ فعلیک نفسک، یعنی تم کوئی ایسی برائی دیکھو جس کے دفع پر قدرت نہ ہو تو بس اپنے کو سنبھالے رہو ، میں تفصیل نہیں لکھتا ، تم سمجھ سکتے ہو کہ میں کیا سمجھانا چاہتا ہوں ۔
اب دوسری حدیث دیکھو :
عن عبد اﷲ بن مسعود ص قال : قال رسول اﷲ ﷺ لما وقعت بنو اسرائیل فی المعاصی نھتھم علمائھم فلم ینتھوا فجالسوھم فی مجالسھم وواکلوھم وشاربوھم فضرب اﷲ قلوب بعضھم ببعض فلعنھم علیٰ لسان داؤد وعیسی بن مریم ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود ص کی روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ جب بنی اسرائیل معاصی میں گرفتار ہوئے اور انہیں علماء نے روکا ، لیکن وہ باز نہیں آئے ، پھر بھی علماء ان کی مجلسوں میں ان کے ساتھ بیٹھتے رہے ، ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے ، نتیجہ یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے بعض کا دل بعض سے ٹکرادیا ، پھر ان پر حضرت داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کے ذریعہ لعنت بھیجی ، یہ ان کی معصیت اور عدوان کی وجہ سے ہوا ۔
اس حدیث نے بتلایا کہ اگر لوگوں کے ساتھ مواکلت ومشاربت اور مجالست کو جاری رکھنا ہے تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ہر گز ترک نہ کرو اور اگر اس کی ہمت نہ ہوتو پھر مجالست ومشاربت کو ترک کرو ۔
اصل یہ ہے کہ ایک عالم دین کا مقصد محض رضائے الٰہی کا حصول ہے ، اور فکر آخرت اس کی زندگی کا مشغلہ ، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ اس کو بلند فرماتے ہیں اور تمام فکروں سے اسے آزاد کردیتے ہیں ، اور اگر دنیا کو مقصد بنا لے گا تو کس وادی میں جاکر گرے گا ،