علمائے سو کی نحوست اور ان کی نیتوں کے فساد کی وجہ سے ہے ۔
ہاں جو علماء دنیا سے بے رغبت اور حب جاہ وریاست اور خواہش مال ورفعت سے آزاد ہیں ، وہ علمائے آخرت ہیں ، اور ورثۂ انبیاء علیھم الصلوات والتسلیمات ! یہ لوگ بہترین خلائق ہیں ، یہی ہیں جن کی روشنائی کل بروزِ قیامت شہداء فی سبیل اﷲ کے خون کے ساتھ تولی جائے گی ، اور وہی وزنی ثابت ہوگی ، نوم العلماء عبادۃٌ انھیں کی شان ہے ، جمالِ آخرت ان کی نگاہوں میں مستحسن ہے ، اور قباحت دنیا ان کے واسطے مشاہد ہوچکی ہے ، انھوں نے آخرت کو بنظر بقا دیکھا اور دنیا کو داغِ زوال سے عیب دار پایا ، ناچار خود کو باقی کے سپرد کیا اور فانی سے باز رکھا ، عظمت آخرت کا شہود در حقیقت نتیجہ ہے عظمت جلالِ لایزال کے شہود کا ، اور دنیا ومافیہا کو ذلیل سمجھنا ثمرہ ہے عظمت آخرت کے شہود کا ،لأن الدنیا والاخرۃ ضرتان إن رضیت أحد ھما سخطت الأخریٰ ،( دنیا وآخرت دونوں سوکن ہیں اگر ایک کو راضی کروگے تو دوسری ناراض ہوجائے گی ) اگر دنیا عزیز ہے تو آخرت ذلیل ہے ، اور اگر دنیا ذلیل ہے تو آخرت عزیز ہے ، ان دونوں کا جمع کرنا جمع بین الضدین ہے ۔ ( مکتوب:۳۳ دفتر اول)
حضرت مجدد صاحب کے ارشادات کے اس آئینے میں تم علمائے سو کے بد نما چہرے اور علمائے خیر کے جمالِ جہاں تاب کو بخوبی دیکھ سکتے ہو ، اب خیال کرلو کہ کس صنف میں شامل ہونا بہتر ہے ، لیکن دور بڑا پُر فتن ہے ، آدمی بچنا چاہے تو مشکل میں پڑجائے گا ، میں تو حیران ہوں کہ کیا کرنا چاہئے لیکن قربان ہادیٔ برحق ں کے ، کہ ان کی تعلیم زندگی کے ہر پہلو اور دنیا کے ہر دور سے تعرض کرتی ہے ، دو حدیثیں لکھتا ہوں :
عن ابی ثعلبۃ فی قولہ تعالیٰ ’’ علیکم أنفسکم لایضرکم من ضل إذا اھتدیتم ‘‘فقال: أما واﷲ لقد سألتُ عنھارسول اﷲ ﷺ فقال : بل