اس کا حصول نعمت عظمیٰ اور اس سے رُوگردانی عذاب الیم ، کہنے کوتو آدمی تا عمر عالم اور مولوی کہلاتا ہے لیکن معاملہ وہاں نام سے نہیں کام سے ہے ، کسی نام کی قدر ومنزلت نہیں ہے ، حقیقت مطلوب ہے ۔ اس حقیقت کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے ، آج ہمارا فساد یہی ہے کہ رسم رہ گئی حقیقت اُٹھ گئی ، لم یبق من الدین إلا إسمہ ولم یبق من القرآن إلا رسمہٗ ،( دین کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش وحروف باقی رہ جائیں گے )
سیدنا امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : دنیا کی رغبت ومحبت علماء کے چہرۂ جمال کا بد نما داغ ہے ، مخلوق گوکہ ان سے فائدہ اٹھاتی ہے ، لیکن ان کا علم خود ان کے حق میں سود مند اور نافع نہیں ہوتا ، اگرچہ تائید شریعت اور تقویت ملت ان سے حاصل ہوتی ہے ، مگر ایسا ہوتا ہے کہ ’’ اہل فجور ‘‘ اور ’’ اربابِ فتور ‘‘ سے کبھی تائید وتقویت کا کام لے لیا جاتا ہے ، چنانچہ سید الانبیاء علیہ وعلیہم والصلوات والتسلیمات نے مرد فاجر کے واسطے سے تائید دین کی اطلاع دی ہے ، فرماتے ہیں : إن اﷲ لیؤید ھٰذا الدین بالرجل الفاجر ،( بیشک اﷲ تعالیٰ اس دین کی مدد فرمائے گا فاجر آدمی کے ذریعہ) ایسے علماء جن کا ہم ذکر کررہے ہیں سنگ پارس کے ہم رنگ ہیں ، کہ اگر تانبا اور لوہا اس سے مس کرلے تو سونا بن جائے ، لیکن وہ سنگ کا سنگ ہی باقی رہے ، لکڑی اور چقماق میں آگ پوشیدہ ہوتی ہے ، دنیا اس سے آگ نکال کر فائدہ حاصل کرتی ہے مگر وہ لکڑی اور چقماق خود محروم ہے ، بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ علم ان کے حق میں سخت مضر ہے ، کیونکہ اس نے ان پر خدا کی حجت تمام کردی ہے : إن أشد الناس عذاباً یوم القیامۃ عالم لم ینفعہ اﷲ بعلمہ ، اور کیوں نہ مضر ہو؟ جو علم کہ حق تعالیٰ کے نزدیک