ان سے پہلی بارمیری ملاقات قیام دیوبند کے زمانے میں ہوئی تھی ۔ ان دنوں دارالعلوم کی دینی وعلمی فضا مخصوص طرح کی شورش اور ہنگامہ آرائیوں سے مکدر تھی ، ماحول میں ہر طرف وقار وسنجیدگی کا ایک طرح سے قحط تھا ۔ ان ہی ایام میں ایک روز مولانا ابرار احمد صاحب ( امام جامع مسجد دربھنگہ) کے کمرے میں مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی سے ملاقات ہوئی، اور ہم دونوں ایک دوسرے سے متعارف ہوئے ، اثناء گفتگو میں مَیں نے عرض کیا کہ مولانا! دیوبند کا سفر ہم نے حصولِ علم کی خاطر کیاتھا ، علم کے ساتھ ہماری ایک اور غرض اپنی تربیت واصلاح بھی تھی ، مگر نہیں معلوم کیوں ہم یہاں پہونچ کر انتظامیہ کی اصلاح کے درپے ہوگئے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا قافلہ جادۂ مستقیم سے بھٹک گیاہے اور منزل بتدریج ہم سے دور ہوتی جارہی ہے ، مجھے انتہائی مسرت ہوئی کہ موصوف نے میری معروضات خندہ پیشانی سے سنی اور بحث وگفتگو کے بجائے میرے خیالات سے موافقت فرمائی ۔ میں اس صاف گوئی اور وسعت ذہنی سے بے حد متاثر ہوا،اور ان کی قدر ومنزلت میری نگاہوں میں روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ وہ جب تک دیوبند میں رہے شاید کوئی دن ایسا نہیں گذرا جس میں دوایک بار ہماری ملاقات نہ ہوئی ہو، دیوبند سے واپسی کے بعد مولانا جہاں بھی گئے اور جس حال میں بھی رہے بذریعۂ خطوط اس عاجز کی خبر گیری فرماتے رہے ، خود میں نے بھی اپنی طبعی کسلمندی اور کوتاہ قلمی کے باوجود انھیں عریضہ ارسال کرنے میں تاخیر اور لیت ولعل سے کام نہیں لیا ۔ موصوف کا اندازِ تخاطب اور طرزِ تحریر جس کی حلاوت وشیرینی سے عرصہ ہائے دراز تک لطف اندوز ہوتارہاہوں ، آج بھی جب اس کی جانب ذہن جاتا ہے تو طبیعت میں ایک طرح کا نشاط وانبساط پیدا ہوجاتا ہے۔
ان خطوط میں خلوص تھا ، محبت بے ریا تھی ، شفقتوں کی عطر بیزی تھی ، شرافت