مقبول ا کا دین اور طریقہ تو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت وخوشنودی کا حصول ہے ، اگرہم نے اپنا مذہب نافرمانی بنالیا یا کم از کم فرمانبرداری کی لگن سے ہم خالی ہوگئے تو طریقہ بدل گیا ، یا اگر ہم نے آپ کی سنتوں اور طریقوں کو ترک کرنا اپنا دستور بنالیا یا کم از کم ان کا اہتمام باقی نہیں رکھا تو ہم ……معاذ اﷲ سوبار اﷲ کی پناہ! أعاذنا اﷲ منہ وسائر المسلمین…… آپ کی لائی ہوئی شریعت کے قاتل ثابت ہوں گے ، سوچو کیسی محرومی کی بات ہے ، کیا اس کے بعد بھی آپ کا ترکہ ہمیں ملے گا ۔
دیکھو یہ سطریں لکھتے ہوئے میرا دل کانپ گیا ، بے اختیار آنکھیں ڈبڈبا گئیں ، کیا ہم نے اپنے آپ کو اس سطح پر اتار لیا ہے ، جہاں ہم کو اس طرح خطاب کیا جائے ؟ اﷲ سے توفیق مانگو ، استعاذہ کرو ، اللٰھم نسألک علماً نافعاً ورزقاً طیباً وعملاً متقبلاً ونعوذبک من علمٍ لا ینفع وقلبٍ لایخشع ومن دعوۃٍ لا یستجاب لھا (اے اﷲ! ہم آپ سے سوال کرتے ہیں علم نافع کا ، رزق پاکیزہ کا ، عمل مقبول کا اور ہم آپ کی پناہ میں آتے ہیں ایسے علم سے جو نافع نہ ہو ، ایسے قلب سے جو خشوع سے خالی ہو، اور ایسی دعا سے جو قبولیت سے محروم ہو )
اصل یہ ہے کہ آدمی کو ہر وقت ایک دھن ہونی چاہئے کہ اﷲ کی رضا کہاں سے ، کس عمل سے ، اور کس نیت وارادہ سے حاصل ہوسکتی ہے ، اسی میں آدمی غلطاں وپیچاں رہے ، سوچ سوچ کر ایسے اعمال اختیار کرے اور دل کی نیت ایسی بنائے جس سے حق تعالیٰ خوش ہوں ، باقی سب ہیچ ہے ، نہ دنیا کچھ ہے اور نہ اہل دنیا کچھ ہیں ، سب پر جھاڑو پھیرو ، پھر کیا ہوگا ، بس تمہیں کیا بتاؤں ، میں بتاؤں تو میری حیثیت کیا ؟ ان کی زبان سے سنو جن کی صداقت وامانت پر دنیا اس وقت سے ایمان لائی ہوئی ہے جبکہ انھوں نے ایمان لانے کی ابھی دعوت بھی نہیں دی تھی ، حق تعالیٰ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں :