انھیں بھی راہِ سلوک وتصوف کے عام مسافروں پر خاصی فضیلت وبرتری حاصل ہے ۔ یہ محض خطوط نہیں بلکہ راہِ طریقت کے راہ نوردوں کیلئے چراغِ راہ اور زادِ سفر ہیں ، خدا جانے ان ابر پاروں کی بدولت کتنے ویرانے سبزہ زار بن گئے ، کہاں کہاں اجڑے ہوئے گلشنوں میں بہار آگئی اور کس قدر مردہ قلوب میں زندگی پیدا ہوگئی۔ اخلاق وعادات سنور گئے اور عقائد واعمال کی اصلاح ہوگئی۔
زہد وقناعت ، توکل واستغناء ، تسلیم ورضا کی خو، خدمت خلق کا جذبہ ، فکر آخرت ، محبت الٰہی اور اتباع سنت وشریعت کا شوق ،جو بندہ ٔ مومن کی لازمی صفات ہیں ، فی الاصل متبعین سنت وشریعت کی صحبت سے ہی پیدا ہوسکتے ہیں ، یا پھر ان کی کتابوں سے ۔ نرے محققین ومصنفین کی تصنیفات وتحریرات سے علم وآگہی میں وسعت تو پیدا ہوسکتی ہے مگر عمل کا داعیہ بھی پیدا ہوجائے بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔
مجھے اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اصحاب معرفت اور علماء آخرت کے ان بیش بہا تالیفات اور مواعظ ومکتوبات سے میں اپنی کوتاہ ہمتی کے باعث میں خاطر خواہ استفادہ نہ کرسکا،لیکن میرے حلقۂ احباب میں بعض حضرات ایسے ہیں جنھوں نے اکابر کی کتابوں سے علمی وعملی ہر دولحاظ سے بڑے منافع حاصل کئے ، بطور خاص میرے نہایت قریبی اور دیرینہ رفیق حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی اور احباب کے مقابلے میں اس چشمۂ صافی سے کہیں زیادہ سیراب اور بے انتہاء فیضیاب ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف کے مزاج ومذاق اور کردار وگفتار میں ہمیں بزرگانِ سلف کی زندگی کی جھلک ملتی ہے ؎
میں کہ مری نوا میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو