جائیں ، میرے لوگوں کے سامنے ایک عظیم مقصد ہے ، وہ ہے دین اور دین کے مالک کو پالینے کی لگن اور جنونِ آرزو ، حطامِ دنیا تمہارا مقصد نہیں ، عزت وجاہ تمہارا مطمح نظر نہیں ، تمہیں عشق ودیوانگی ہی زیب دیتی ہے ، دنیا میں عاقلوں اور فرزانوں کی کمی نہیں ہے ، دیوانوں کی کمی ہے ، نگاہ اُٹھاؤ ، گرد وپیش کو دیکھو ، بیشتر ایسے ہیں جن کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ماں باپ نے بھیج دیا ، آگئے اور بس ۔ جو ذرا ان سے آگے ہیں ، ان کا یہ خیال ہے کہ پڑھ کر کسی دھندے میں لگیں گے ، ان سے بڑھ کروہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم عربی تحریر وتقریر کی مشق کرکے ملک عرب کی راہ لیں گے یہ سب کیا ہے ؟ دنیا ہے ، دین ایک بھی نہیں ہے ، دین صرف یہ ہے کہ حصول علم کے راستے میں نظر خالق علم کے سوا کسی پر نہ ہو ، اور یہ اتنا بڑا مقصد ہے کہ اس کے سامنے اور چیزوں کو مقصد کہنا ہی مہمل ہے ، بھائی تم نے اچھی تقریر کرلی تو ایک اچھے مقرر ہوجاؤگے ، کیا آج کل کی تقریریں خدا کو پسند آتی ہیں ، تم نے بہت عمدہ لکھنا سیکھ لیا تو مانا کہ اچھے مصنف بن جاؤگے ، لیکن کیا حاصل ؟یہ سب ہیچ ہے ، ایک خدا کے ہوجاؤ ، پھر وہ جو کام لینا چاہیں گے اس کا راستہ آسان کردیں گے ، ابھی صرف پڑھو ، علم بڑھانے کی کوشش کرو ، ذہن و دماغ کو جِلا دو ، کتب درسیہ میں خاص محنت کرو ، معصیت ونافرمانی سے دور بھاگو کہ اس کے ساتھ علم تو نہیں آسکتا چاہے معلومات بڑھ جائیں ، یاد رکھو معلومات کانام علم نہیں ، علم اس نور کا نام ہے جو مومن کے قلب صافی میں رکھا جاتا ہے ، جس سے حقائق اشیاء تک رسائی ہوجاتی ہے ، دیکھو صحابہ کی صفت أعمقھم علماً آتی ہے ، حالانکہ ان کے پاس معلومات بہت کم تھیں ، اور یہ جو اخباری معلومات ، صنعت وحرفت کی معلومات و تجربات کا نام علم رکھ دیا ہے ، یہ سراسرجہل ہے ، علم حقیقت میں وہ ہے جو رضائے الٰہی کا راستہ بتائے ، لیکن خوب سمجھ لو آج کل یہ راستہ بالکل متروک ہے ، اکیلے چلنا پڑے گا ،