غبارے گشتہ ٔ آسودہ نتواں زیستن ایں جا
ببادِ صبحدم درپیچ ومنشیں برسرراہے
زجوئے کہکشاں بگذر ، زنیل آسماں بگذر
زمنزل دل بمیرد ، گرچہ باشد منزل ماہے
اگر زاں برقِ بے پروا،درونِ او تہی گردد
بچشمم کوہِ سینا می نیرزد ، باپر کاہے
کچھ سمجھے ! اقبال کہتا ہے کہ :
٭اے بلند ہمت شاہین ! تم نے اپنا آشیانہ چمن میں بنالیا ہے ، کچھ خبر بھی ہے ، چمن کی آب وہوا بازوئے پرواز میں ضعف وشکستگی پیدا کردیتی ہے٭ (اقبال کا شاہین مومن ہے )٭ او ہو ! تم غبار ہو گئے ہو ، اور پھر راستہ میں بیٹھ گئے ہو ، یہاں اطمینان کی زندگی نہیں گزرسکتی ، ہر آنے والا پامال کرے گا ، بادِ صبح میں اُڑ جاؤ ، راستہ میں نہ بیٹھو ٭ اور ہمت تو اتنی بلند رکھو کہ کہکشاں کی نہر روشن سے گزر جاؤ ، آسمان کے نیل بیکراں سے آگے بڑھ جاؤ ، اور منزل ہرگز نہ کرو ، منزل کرنے سے دل مرجاتا ہے ، خواہ چاند کی ہی منزل کیوں نہ ہو ٭کوہِ سینا جو اک مقدس وعظیم پہاڑ ہے ، اگر وہ بھی اس برقِ بے پروا سے خالی ہوجائے تو میر ی نگاہ میں اس کی بھی وقعت تنکے کے برابر نہ رہے گی ۔( طورِ سینا پر تجلی الٰہی کا نزول ہوا تھا ، شاعر نے برقِ بے پروا سے اسی کی جانب اشارہ کیا ہے )
ان اشعار کے نقل کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں نے اپنے جن لوگوں کو علم دین اور دین اور سب سے بڑ ھ کر طلبِ الٰہی کے شرارِآ رزوسے بھر کر بھیجا ہے ، ہر وقت اندیشہ ناک رہتا ہوں کہ خداوندانِ مکتب ان کو رُوباہی کا سبق نہ دینے لگ