ادب وانشاء اور خطوط نویسی کے فن کو غیر معمولی عروج وترقی سے ہمکنار کردیا اور جگہ جگہ مترجمین اور کامیاب منشیوں کے حلقے وجود میں آنے لگے ، کچھ لوگوں نے کتابت وانشاء سے تعلق رکھنے والے افراد واشخاص کی تربیت ورہنمائی کے لئے چھوٹی بڑی کتابیں تالیف کرنی شروع کردیں ، اور اس طرح بیک وقت دونوں گلشن علم وادب میں گویا ہمہ جہت بہار آگئی ۔ خیر یہ تو بادشاہوں اورسلاطین کے زیر اثر پروان چڑھنے والے انشاپردازوں اور مکتوب نگاروں کا ذکر تھا۔
چوتھی صدی کے اواخر یا پانچویں صدی کے اوائل میں صوفیاء ، مشائخ اور مصلحین کے طبقے پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہماری نگاہ امام غزالی کے خطوط کے مجموعے پر جاکر ٹھہر جاتی ہے ۔ راہِ سلوک کے مسافروں اور طالبانِ حقیقت کے لئے یہ مجموعہ مشعلِ راہ اور رفیق سفر کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی ایک ایک سطر سے امام صاحب کی ژرف نگاہی اور بے انتہا علم وآگہی کا اظہار ہوتا ہے۔
برصغیر ہندوپاک میں جن علماء ، مشائخ اور صوفیاء محققین کے ملفوظات ومکاتیب کو غیر معمولی مقبولیت وپذیرائی حاصل ہوئی ، ان میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اﷲ سرفہرست ہیں ۔
ترکستان سے برصغیر تک اور کابل سے برما تک کوئی صوبہ، کوئی شہر اور کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں ان حضرات کے خطوط احترام وعقیدت کے ہاتھوں نہ لئے جاتے ہوں اور محبت وعظمت کے ساتھ انھیں پڑھا نہ جاتا ہو، جن خوش نصیبوں کو براہ راست ان حضرات کی صحبت ومعیت میسر آگئی ان کی فیروزمندیوں کاتو پوچھنا ہی کیا، رہے وہ اصحاب جنھو ں نے ان کی کتابوں اور مکتوبات سے استفادہ کیا اور فیضیاب ہوئے ،