دیکھو کہ کون سا عمل ان کو پسند آئے گا ، چاہے دنیا ہزار ناپسند کرے ، جب اس نقطۂ نظر سے اپنے اعمال پر غور کروگے تو نماز روزہ بھی باعث وبال نظر آئیں گے ، کیونکہ نماز خدا کے نزدیک وہی پسند آتی ہے جو خشوع وخضوع اور حضورِ دل سے پڑھی جائے ، چلنا پھرنا ، کھانا پینا ، سب وبالِ جان معلوم ہوگا ، کیونکہ کسی کام میں یہ نیت نہیں ہوتی کہ میں خدا کا حکم پورا کررہا ہوں ، سب لاپرواہی سے مشینی طور پر انجام پاتے ہیں بلا قصد وارادہ ، میاں ایسا کام خدا لے کر کیا کریں گے ، بہت تیقظ وبیداری کی ضرورت ہے ، جب اپنے اعمال وافعال کا مسلسل محاسبہ کروگے تو اپنے عیوب مستحضر ہوجائیں گے ، پھر تمہیں فرصت ہی نہیں ملے گی کہ دوسروں کے عیب کی جستجو میں پڑو ، دل کی مثال ایک زمین کی سی ہے جس پر مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے ، ہر وقت طرح طرح کے خیالات اس پر گزرتے رہتے ہیں ، تم غور سے دیکھو ان میں کتنے ایسے خیالات ہوتے ہیں کہ جن کو لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو ، اب تم سوچو سب خیالات خداوند کریم دیکھ اور سن رہے ہیں ، آدمی کو تو شرمندگی سے کٹ جانا چاہئے ، مگر بے حیا جئے جاتا ہے ، یقین ہے کہ کل میدانِ قیامت میں سب راز ظاہر کردئے جائیں گے ، جب یہ بات سامنے ہوگی تو اپنے اندر کوئی ہنر اور خوبی نہیں معلوم ہوگی ، اور یہی مطلوب ہے ۔
اب رہ گیا مسئلہ تنعم کا ، تو اس کی وجہ ظاہر ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حیثیت بلند ہے ، اور وہ اسی بلندی پر رہتے ہیں ، باقی لوگ متوسط طبقہ میں ہیں ، وہ بھی انھیں کی ریس کرتے ہیں ، مالداروں میں عیش پرستی لازماً آہی جاتی ہے ، اور وہ اس کا نام تمدن رکھتے ہیں ، اور اس تمدن کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، حالانکہ وہ بلائے جان ہے ، اور تم لوگوں کو چونکہ اس ماحول سے باہر نکلنے نہیں دیاجاتا ،ا س لئے اس کے بالکل عادی ہوجاتے ہو اور اس کے خلاف میں عار محسوس ہوتا ہے ۔ خیر اس پر