نہیں ہیں ۔ خوب سمجھ لو اگر تم اپنے بھائی کے عیب چھپاؤگے تو اﷲ تعالیٰ تمہارے عیوب کو چھپائے رکھیں گے ، اور تم دوسروں کے عیب کھولوگے تو دوسرا تمہارا عیب کھولے گا ، اور آج کل کسی ماحول میں چلے جاؤ ہر جگہ یہ وبا عالمگیر پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے ، اسی وجہ سے کوئی کسی پر ذرہ برابر اعتماد نہیں کرتا ، تم خود اپنے متعلقین کا گہری نظر سے جائزہ لو ، دیکھو کتنے ایسے ہیں جن کے بارے میں تمہیں اطمینان ہے کہ وہ کبھی تمہارے خلاف زبان وعمل سے کوئی حرکت نہیں کریں گے ، یا کون ہے جو تم پر اتنا اطمینان کرتا ہے ، مشکل سے ایک آدھ نکلے گا ،بلکہ ایک بھی نہیں ، یہ کیوں ہے ؟ اسی لئے تو کہ ہر شخص دوسرے کی عیب چینی میں مشغول ہے ، اپنا عیب کسی کو نظر نہیں آتا ، اور آتا بھی ہے تو اہم نہیں سمجھتا ، یہ خود بینی بھی بہت بری بلا ہے ، اس سے بچنے کا بس یہ طریقہ ہے کہ اپنے اعمال وافعال کا ہر وقت محاسبہ کرتے رہو ، اور ا س طور پر کرو کہ ہمارے فلاں فعل سے خدا کی رضامندی اور فلاں فعل سے خدا کی ناراضگی ہوتی ہے ، اس نظرئے سے نہیں کہ فلاں کام کروں گا تو لوگوں کی نگاہ یا فلاں شخص کی نگاہ میں میری وقعت گر جائے گی ، آج کل اگر غور کرکے جائزہ لو تو ہمارے زیادہ تر افعال واعمال کی بنیاد یہی ملے گی کہ فلاں کام ہماری بے عزتی کا باعث ہوگا ، اسی لئے ایسا کام ہم تنہائی میں کر گزرتے ہیں ، اور اگر وہ فعل ظاہر ہوجاتا ہے تو ہمیں بے انتہاء شرمندگی ہوتی ہے ، اس کے برخلاف اچھے اعمال کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ اس سے ہماری وقعت وعزت ہوگی ، اَقران وامثال یا اساتذہ واکابر کی نگاہ میں ہم معزز ہوجائیں گے ۔ محنتی طالب علم محنت کرتا ہے کہ اچھے نمبر حاصل کرے ، اور دیوبند میں فرسٹ کلاس کہلائے ۔ زاہداس لئے زُہد اختیار کرتا ہے کہ لوگوں میں عزت وحرمت بڑھے ، یہ کون دیکھتا ہے کہ اﷲ اس سے راضی ہوں گے ، میرے بھائی یہی دنیا ہے ، تم یہ نظریہ کبھی نہ اپناؤ ، مخلوق کو لگاؤ جوتے اور خالق کو