جس وقت میں نے خط لکھا تھا ، اس وقت کوئی خاص بات ذہن میں تھی اب نکل گئی ، تاہم سنو !
خرابی اور عیوب پیدا کرنے کا ذمہ دار اپنے نفس اور شیطان کے بعد آدمی کا ماحول ہوتا ہے ، آدمی کے گردوپیش جن چیزوں کا عمومی رواج ہوتا ہے وہ اس کے لئے معمولی اور غیر اہم بات ہوجاتی ہیں ، ان کا قبح ذہن سے نکل جاتا ہے ، حالانکہ بسااوقات وہ باتیں بیحد خطرناک ہوتی ہیں ۔
مثلاً بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں تجسس عیوب بہت ہے ، ہر شخص انتہائی رازدارانہ طریقہ پر دوسرے کے حالات سے بحث کرتا ہے ، اور اس کے نتیجے میں بدگمانی ، اس کے آگے دشمنی ، غیبت ، حسد وغیرہ امراض پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات ہر جگہ بالعموم اور ۔۔۔۔۔ بالخصوص اس درجہ رواج پذیر ہے کہ اس کی برائی کا احساس تک باقی نہیں رہا ، اچھے اچھے لوگ جن کے تقدس کی بعض لوگ قسم کھاتے ہیں اس مرض مہلک میں گرفتار ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سخت ترین گناہ ہے اور جب انسان دوسروں کے عیوب دیکھنا شروع کرتا ہے تو اس کی نگاہ سے اپنے عیوب پوشیدہ ہوجاتے ہین اس کے بعد وہ خود بینی یعنی اپنے ہنر اور خوبی کو دیکھنے میں مبتلا ہوجاتا ہے ، پھر ظاہر ہے کہ اس کا ردیف کبر ہے ، تم خود سوچو ، مجالس میں تھوڑی دیر بیٹھو ، اور کسی خاص شخص کے عیوب پر بحث ہورہی ہو ، اس وقت اپنے دل کو ٹٹولو ، دوسروں کے چہرے مہرے کا جائزہ لو ، کیا تم اپنے دل میں یا دوسروں کے چہرے پر کراہیت کے آثار پاتے ہو ، بلکہ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ چلو اچھا ہوا، وہ بدنام ہوتا ہے ، حالانکہ بھائی جیسے اس کے اندر عیوب ہیں ویسے ہی تمہارے اندر بلکہ اس سے زیادہ عیوب ہیں ، تو جو تم اس کی پردہ دری پر خوش ہورہے ہو ،کیا اﷲ تعالیٰ تمہاری پردہ دری پر قادر