مختصر تحریر میں علم وادب کے ان جواہر پاروں پر میرے لئے کچھ اور کہنا بیحد دشوار ہے۔
ورق تمام ہوئے اورمدح باقی ہے سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے
مدینہ منورہ کے دس سالہ عہد میں روم وایران کے فرمانرواؤں اور ان کے زیر اثر چھوٹی چھوٹی حکومتوں کے سلاطین کے نام یہ خطوط بھیجے گئے تھے ، عام لوگوں کی سہولت اور استفادے کی خاطر علماء ومحدثین نے یکجا کتابی صورت میں بھی انھیں مرتب کردیاہے ، دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتربیت کے میدانوں میں کام کرنے والے حضرات کے لئے اس مجموعۂ مکاتیب کا مطالعہ بے حد نفع بخش اور کارآمد ہے۔
آپ اکے خطوط کے بعد خلفاء راشدین کے مکتوبات میں اصحاب علم ونظر کو حقائق ومعارف اور بصیرت وآگہی کا سب سے زیادہ سامان مل سکتا ہے ، یہ خطوط زیادہ تر اسلامی ریاست کے گورنروں ، قضاۃ اور فوجی افسروں کے نام ہیں ، انھیں خطوط کہنے کے بجائے نامہ ہائے ہدایت کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ خلافت راشدہ کے بعد ائمہ اور محدثین نے اپنے زمانے کے علماء ، محققین اور سلاطین کے نام جوخطوط لکھے ہیں ا، ان کے مجموعے اس اہتمام سے مرتب نہیں ہوسکے جن کے وہ مستحق تھے ، تاہم خال خال ہمیں اس کے نمونے مل جاتے ہیں ۔
علوم وفنون کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب وانشاء اور خطوط نگاری کے فن کو تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں جسے سلجوقیوں ، سامانیوں اور غزنیوں کا عہد حکومت کہنا چاہئے بے انتہا ترقی ہوئی، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ ان بادشاہوں کی مادری زبان فارسی تھی ، جبکہ دفتری کاموں کے لئے عربی زبان رائج تھی ، انھیں ایسے لائق مترجمین اور کامیاب انشاء پردازوں کی ضرورت تھی جو سرکاری خطوط اور شاہی فرامین کو ایک زبان سے دوسری زبان میں کمالِ احتیاط ودلکشی سے منتقل کرسکیں ، اس ضرورت نے