قرآن حکیم کے واسطے سے ملتا ہے ، وہ حضرت سلیمان ں کا ہے ، یہ خط ملکہ سبا بلقیس کو ان کی جانب سے بھیجا گیا تھا ، نامہ بری ہدہد نامی پرندے کے حصے میں آئی ، اور اس طرح بآسانی ملکہ سبا تک پیغمبر خدا کا یہ مکتوب پہونچ گیا۔ خط مختصر ہونے کے باوجود نیاہت جامع، دوٹوک اورواضح ہے۔غرض بلاغت کی تمام خوبیاں اس خط میں موجود ہیں ۔’’ إَنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَإِنَّہٗ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ أَلَّاتَعْلُوْ عَلَیَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘ خط حضرت سلیمان کی جانب سے ہے اور خدائے رحمن ورحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ میرے مقابلے میں غرور وسرکشی نہ کرو،اور مطیع وفرمانبردار بن کر حاضر ہوجاؤ۔ چنانچہ ملکہ حاضر ہوگئی۔ یہاں یہ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت سلیمان ں ایک طرف اﷲ کے جلیل القدر پیمبر ہیں تو دوسری طرف وقت کے عظیم المرتبت حکمراں اور فرمانروا بھی۔ جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ اپنے خالق ومالک کی اطاعت گذار اور فرمانبردار بن کر آؤ، یا پھر حاکم وبادشاہ ہونے کی حیثیت سے میری اطاعت وماتحتی قبول کرو۔
تبلیغی ودعوتی مکاتیب کے سب سے زیادہ تابناک اور دلکش نمونے نبی آخر الزماں محمد عربی اکی سیرت واحادیث کی کتابوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہ خطوط اس قدر بیش قیمت اور گراں قدر ہیں کہ بڑی سے بڑی حکومت وسلطنت بھی ان کی قیمت لگانے سے قاصر ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔ اسلوبِ بیان کی ندرت اور حقائق ومعانی کی وسعت غرض ہر پہلو اور ہر جہت سے یہ جواہر پارے اپنی مثال آپ ہیں ، ان خطوط میں نہ اتنا اجمال واختصار ہے کہ کسی بات کا سمجھنا دشوار ہواور نہ اس قدر بسط وتفصیل کہ خدا نخواستہ طوالت کا گمان ہو ، بہ الفاظ دیگران میں فصاحت وبلاغت کی جو شان ہے وہ کسی ادیب ، کسی مصنف اور کسی انشاپرداز کے یہاں ہمیں نہیں مل سکتی ۔ اس