یوں سمجھو ساری مخلوقات عدم محض ہے کچھ بھی نہیں ہے ، جیسے رات تاریک ہو اور مکان میں اندھیرا ہو پھر یکایک سورج نکلا اور مکان کے دروبام روشن ہوگئے توکیا تم کہہ سکتے ہو کہ مکان اپنے آپ روشن ہے ، اور جب تک چاہے روشن رہے ، اگر کوئی بیوقوف ایسا کہے تو تم اس سے کہہ دوگے اچھا سورج کے غروب ہونے کاانتظار کرو ، خود بخود سمجھ میں آجائے گا ، اسی طرح مخلوقات کا حال سمجھو ، یہ عدم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے مکانات ہیں ، خدا نے وجود کی روشنی ڈالی تو نمایاں ہوگئے ، یہ روشنی ہٹالی جائے گی پھر ختم ۔ جب انحصار خدا کی ذات پر ہوا ، اورمخلوقات کی حقیقت عدم محض ہے تو اس کی طرف نگاہ ہی کیوں کی جائے ، صرف خدا کو پکڑا جائے ، بخدا کہتا ہوں کہ جب اس ایک کو پکڑوگے سب کے سب تمہارے ہاتھ آجائیں گے ۔
دیکھو حدیث میں آتا ہے کہ مخلوقات کے قلوب خدا کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں جس طرح چاہتا ہے الٹتا پلٹتا ہے ، کیا جب تم خدا کو راضی کرلو گے تو مخلوقات کے قلوب کو وہ تمہاری رضا مندی سے معمور نہیں کردے گا ، بلکہ اس طرف نگاہ بھی کرناخطا ہے ، میں تو کہتا ہوں کہ ساری مخلوق ناراض رہے ، ایک خدا راضی رہے کیا پرواہ ہے ، جیسے بادشاہ کا کوئی خادم ہو ، اس سے ملک کا ہر باشندہ خفا ہے مگر اسے کیا فکر جبکہ بادشاہ راضی رہے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ خدا سے عافیت کا سوال کرتے رہنا چاہئے ، یہ تو ایک عمومی بات کہی گئی ۔
اب خاص طور سے والدین کے متعلق ایک بات کہتا ہوں ، میرا تجربہ ہے کہ جب مقصودصرف خدا کی رضاہو تو والدین ہرگز ناراض نہیں رہتے ، اگر ہمارے طرزِ عمل سے والدین کچھ کبیدہ خاطررہتے ہیں تو یہ یقینا ہماری کوتاہی ہے ۔ اب سنو !
حوصلہ یہ ہونا چاہئے کہ معصیت کے علاوہ ہم والدین کے ہر حکم پر کمربستہ